عمران نے احتجاج کی ناکامی کے بعد سول نافرمانی کی کال کیوں دی؟

اپنی اسلام آباد احتجاج کی فائنل کال ناکام ہونے کے باوجود عمران خان نے حکومت سے مذاکرات کے لیے پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے سول نافرمانی اور بائیکاٹ کی مہم کا چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مطالبے تسلیم نہ کیے گئے تو وہ 14 دسمبر سے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز کریں گے۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی کی مرتبہ اس بار بھی عمران کی اعلان کردہ تحریک ناکامی کا شکار ہو گی کیونکہ اسلام آباد احتجاج کے فیل ہونے کے بعد اب حکومت کسی قسم کا دباؤ لینے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔

عمران خان  نے اپنی جماعت کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور نو مئی اور چھبیس نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ چودہ دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے۔ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں کہا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے انہوں نے ایک پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت کو نتائج کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔

عمران خان جن دو واقعات کی عدالتی کمیشن سے تحقیقات چاہتے ہیں، وہ پی ٹی ائی کے حکومت مخالف مظاہرے تھے جنہیں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ناکام بنا دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فائرنگ سے اس کے کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئیں اور بڑی تعداد میں کارکنوں کو ریاستی اہلکاروں  نے گرفتار بھی کیا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ بیرسٹر گوہر خود تسلیم کر چکے ہیں کہ 26 نومبر کو پی ٹی ائی کے صرف 12 مظاہرین کی ہلاکت ہوئی اور سینکڑوں ہلاکتوں کا دعوی بے بنیاد ہے۔ دوسری طرف حکومت کا کہنا ہے کہ اسلام اباد احتجاج کے دوران رینجرز اور پولیس کے پانچ جوان شہید ہوئے جبکہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پانچ شر پسند مارے گئے۔

عمران خان نے اپنی پوسٹ میں کہا ہے کہ ‘تحریک کے ایک حصے کے طور پر، ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہیں گے کہ وہ ترسیلات زر میں کمی کریں اور بائیکاٹ کی مہم شروع کریں۔ دوسرے مرحلے میں، ہم اپنے اقدامات کو مزید بڑھائیں گے۔‘‘

لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی کی تحریک کیسےچلائے گی؟

سیاسی مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کے  لیے اس وقت سول نافرمانی کی کسی موثر تحریک کی کامیابی کی گنجائش کم دکھائی دیتی ہے۔ مبصرین کے بقول پی ٹی آئی نے  عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے جو مظاہرے کیے وہ غلط حکمت عملیوں کی وجہ سے ناکام ہوئے اور اس  وجہ سے پارٹی میں اندرونی جھگڑے ہیں اور لیڈرز ایک دوسرے کو ان ناکامیوں کے لیے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔

 سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے، ”ایسی تحریکیں کامیاب نہیں ہوتیں۔ یہ ایک دھمکی ہی رہے گی اور اگر تحریک کا آغاز ہوا بھی تو وہ ناکامی سے دوچار ہوگی۔ انکے مطابق اس خطے میں خاص طور پر ایسی تحریکوں کو بڑے پیمانے پر حمایت نہیں ملتی کیونکہ لوگ ریاست کے خلاف لڑ نہیں سکتے اور ایسے اقدامات کے برے نتائج ہوتے ہیں، جن کا سامنا افراد کو کرنا پڑتا ہے۔‘‘

لیکن عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حکومت عمران کی دھمکی کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کر سکتی اور اسے پی ٹی آئی کی طرف سے اٹھائے گئے جائز مسائل پر بات چیت کرنی چاہیے۔ انکا کہنا یے کہ ملک میں مثبت اور نتیجہ خیز مذاکرات کے بغیر سیاسی درجہ حرارت کم نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی تجزیہ کار ثنا بُچہ کہتی ہیں، ” عمران خان کے دو مطالبات جائز لگتے ہیں۔ ایک، زیرِ حراست قیدیوں کی رہائی؛ دوسرا، نو مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کا قیام۔ پاکستان میں عدالتی کمیشن کی تحقیقات کی تاریخ اچھی نہیں ہے اور کبھی بھی شفاف جوابات نہیں ملے، لیکن پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت شروع کرنا سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے میں موثر ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

ثنا بچہ نے کہا،”خان کو سیاسی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے کیونکہ افراتفری اور انتشار جو نو مئی کے واقعے کے بعد پیدا ہوا اور جس میں ان کے خلاف اور ایک سو سے زیادہ افراد کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی، ابھی تک عدلیہ نے یہ فیصلہ نہیں کیا کہ کیا شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ آئینی بینچ  حکومت کے کنٹرول میں ہے، خان کے پاس عوامی احتجاج کے لیے ذیادہ گنجائش نہیں ہے۔‘‘ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ فی الحال فوج اور پی ٹی آئی دونوں ہی اپنے رویوں میں لچک کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار نہیں۔

یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے، جب عمران خان نے سول نافرمانی کی اپیل کی ہے۔ 2014 میں، انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایک ایسی ہی مہم کی قیادت کی تھی، جس میں انہوں نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ وہ ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی روک دیں۔ یوٹیلیٹی بلز کو جلانے کے مظاہرے بھی کیے گئے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں، ”نہ تو ماضی میں یہ کامیاب ہوا، نہ ہی اس بار ہو سکتا ہے۔ لوگ آخرکار بل ادا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جہاں تک غیر ملکی ترسیلات کا تعلق ہے، لوگ اپنے گھروں کو پیسے بھیجتے ہیں اور وہ اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے بھیجتے رہیں گے۔ خان کو معاملات طے کرنے کے لیے سیاسی مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔‘‘

ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا مذاکرات ممکن ہیں؟ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس وقت ماحول بات چیت کے لیے دوستانہ نہیں ہے کیونکہ دونوں حریف، پی ٹی آئی اور حکومت جو کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت میں ہے، لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ثنا بُچہ کہتی ہیں، ”فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان اب بھی بہت دوری ہے اوردونوں ہی لچک دکھانے کے لیے تیارنہیں ہیں۔‘‘ لیکن انہوں نے کہا کہ  دونوں فریقین کے لیے سیاسی بحران  کم کرنے کا واحد قابل عمل آپشن بات چیت ہی ہے۔

بھینسے اور بکرے کی خوفناک لڑائی میں جیت کس کی ہو گی؟

پی ٹی آئی کے رہنما بھی مذاکرات کی کامیابی پر یقین نہیں رکھتے اور وہ اس بات پر بھی واضح نہیں ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوں تو وہ کیا حکمت عملی اپنائیں گے۔ پی ٹی آئی  کے رہنما اور پیشے کے اعتبار سے سپریم کورٹ  کے وکیل شعیب شاہین کا کہنا ہے، ”ہم نے اس سول نافرمانی کی تفصیلات پر بات نہیں کی جس کی عمران خان نے وارننگ دی ہے۔ یہ ابھی بہت ابتدائی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی ناممکن لگتا ہے کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم پارٹی میٹنگز میں اس معاملے پر بات کریں گے کہ کیا کرنا ہے، کیسے کرنا ہے اور مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔‘‘

Back to top button