قاتلانہ حملے کا الزام لگا کر عمران گواہی دینے سے کیوں انکاری ہو گئے ؟

وزیر آباد میں خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے کا ذمہ دار وزیر اعظم شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ سمیت اعلی سیکورٹی ذمہ داران کو قرار دینے والے بانی پی ٹی آئی عمران خان بارہا عدالتی طلبی کے باوجود گواہی دینے سے مکر گئے۔ جس کے بعد عمران خان پر ہونے والی فائرنگ اور قاتلانہ حملہ کیس کا ٹرائل اپنے اہم ترین گواہ یعنی عمران خان کی گواہی کے بغیر ہی ختم ہوگیا۔ عدالت کی جانب سے طلب کئے جانے کے باوجود عمران خان کی جانب سے ملزمان کیخلاف گواہی نہ دینے کے عمل نے کئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ عمران خان کے گواہی سے احتراز کے بعد ناقدین سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ عمران خان پہلے تو حکومتی و عسکری شخصیات کے خلاف بلندوبانگ دعوے کرتے تھے تاہم جب انھیں عدالت نے اپنے دعوؤں کو ثابت کرنے کیلئے طلب کیا تو وہ جوتیاں چھوڑ کر بھاگ گئے،

خیال رہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نےوزیر آباد میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کے فوری بعد ایک بیان میں اس کا ذمہ دار وزیرِ اعظم شہباز شریف، اس وقت کے وفاقی وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ اور ملک کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس آئی ایس آئی کے کاؤنٹر انٹیلی جنس شعبے کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر کو قرار دیا تھا۔سابق وزیرِ اعظم نے خدشات کا اظہار کیا تھا کہ ان پر حملہ تین لوگوں نے کرایا ہے۔ وہی تین افراد اوپر کے عہدوں پر موجود ہیں، ایسے میں صاف شفاف تحقیقات کیسے ممکن ہیں؟ اس لیے انہوں نے تحقیقات ہونے تک تینوں اعلیٰ عہدیداران کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

واضح رہے کہ وزیر آباد حملے کے بعد حقائق کے برعکس عمران خان اور اُن کی جماعت کے دیگر رہنما اسی ایک نکتے پر بضد تھے کہ یہ حملہ ’سوچا سمجھا منصوبہ‘ تھا جس کے لیے حکمران جماعت نون لیگ نے باقاعدہ اور منظم منصوبہ بندی کی تھی۔ تحریک انصاف شد و مد کے ساتھ حکومتی مؤقف کے برعکس یہ دعویٰ بھی کرتی رہی ہے کہ حملہ آور ایک سے زیادہ تھے۔ اس دعوے کے برعکس اس مقدمے کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی پنجاب پولیس کے پانچ افسران پر مشتمل ٹیم نےتحقیقات کے نتیجے میں واضح کیا تھا انھیں اس مقدمے کے مرکزی ملزم نوید احمد کے علاوہ دیگر افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں کوئی شواہد نہیں ملے۔

دوسری جانب مسلم لیگ نواز نے بھی اس حملے کو خالصتاً ملزم نوید احمد کی کارروائی قرار دیا تھا جس میں اور کسی فرد کا عمل دخل نہیں تھا۔ اس ضمن میں اس تحقیقاتی ٹیم نے ایک خط بھی اعلیٰ حکام کو لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کو اب تک کوئی ایسا ریکارڈ نہیں مل سکا جو اس بات کی تصدیق کرتا ہو کہ حملہ آور ایک سے زیادہ تھے۔ اس خط میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا تھا کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ حملے سے قبل ملزم نوید کا اس سلسلے میں کسی دوسرے فرد کے ساتھ موبائل پر رابطہ تھا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اس مقدمے میں گرفتار ہونے والے ایک اور ملزم وقاص کا کردار ایک سہولت کار سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت بضد تھی کہ اس حملے میں اعلیٰ حکومتی و عسکری شخصیات ملوث تھیں تاہم جب عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے طلب کیا تو عمران خان جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے اور کبھی بھی اس کیس میں عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

عمران خان ہر وقت تسبیح گھماتے ہوئے کون سا درود پڑھتے ہیں ؟

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی وزیر آباد حملے کے بعد بے بنیاد الزام تراشیوں کی وجہ سے ہی عمران خان  کے مطالبے کے باوجود قاتلانہ حملے کے حوالے سے درج کی جانے والی ایف آئی آر میں اعلیٰ حکومتی و عسکری شخصیت کا نام ایف آئی آر میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت کی جانب سے عمران خان کو کیس کی سماعت کے دوران بار بار طلب کیا جاتا رہا کہ وہ عدالت میں پیش ہوں اور ملزمان کیخلاف ان کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو عدالت کے سامنے لائیں تاکہ ملزمان کو کٹہرے میں لایا جا سکے تاہم ٹرائل کے اختتام تک بانی پی ٹی آئی مختلف بہانوں سے عدالتی پیشی سے احتراز برتتے رہے۔ تاہم اب عدالت نے طویل سماعتوں کے بعد  مقدمے کے مرکزی ملزم محمد نوید کو 26 اپریل کو گوجرانوالہ کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پی ٹی آئی کے کارکن معظم گوندل کے قتل اور 3 نومبر 2022 کو ہوئے حملے کے دوران متعدد افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنادی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ عمران خان گولی لگنے سے زخمی ہوئے لیکن گوندل کو سابق وزیراعظم کو نقصان پہنچانے کے جرم میں سزا نہیں دی گئی۔

عدالت کے فیصلے میں اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ استغاثہ کی متعدد مرتبہ کہنے کے باوجود عمران خان نے کیس کے حوالے سے اپنا بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ جس کے بعد عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ٹرائل میں طوالت  عمران خان کی جانب سے گواہی دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے آئی۔ انہیں متعدد بار طلب کیا گیا، ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کا آپشن بھی دیا گیا، لیکن ہر مرتبہ عمران خان نے اپنے وکیل کی عدم دستیابی کو وجہ قرار دیتے ہوئے حاضری سے انکار کیا۔ بعد ازاں، عدالت نے عمران خان کو ’’غیر ضروری گواہ‘

یعنی

‘ (Given Up Witness)

قرار دیتے ہوئے ان کی گواہی کے بغیر ہی کیس ختم کر دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس ہائی پروفائل کیس کا ٹرائل عمران خان کے رویے کی وجہ سے طول پکڑتا رہا۔ نوید کو دہشت گردی اور قتل کا مجرم قرار دیا گیا لیکن دو شریک ملزمان طیب جہانگیر بٹ اور وقاص کو شواہد کی کمی کی وجہ سے بری کر دیا گیا۔ نوید کو عمر قید کے ساتھ چار افراد کو زخمی کرنے کے جرم میں تین سے پانچ سال کی اضافی قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا بھی سنائی گئی۔

Back to top button