امریکہ مخالف عمران نے امریکہ کو ہی اپنا مائی باپ کیوں بنا لیا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار روؤف کلاسرا نے کہا ہے کہ عمران خان کی سیاسی ساکھ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد انہوں نے سائفر لہرا کر اپنے خلاف امریکی سازش کا الزام لگایا اور ایبسولیوٹلی ناٹ کا نعرہ لگا دیا۔ تاہم جیل جانے کے بعد وہی عمران جو "ہم کوئی غلام ہیں” کے نعرے لگواتا تھا اور طالبان کو امریکی غلامی کی زنجیریں توڑنے پر مبارکبار دیتا تھا، آج اگلے امریکی صدر ٹرمپ کو اپنا مائی باپ بناتے ہوئے تمام تر امیدوں کا مرکز بنا چکا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں روؤف کلاسرا بتاتے ہیں کہ امریکہ میں موجود پاکستانی یوتھیے اور تحریک انصاف کی قیادت آج کل عمران خان کی رہائی کے لیے اگلے امریکی صدر ٹرمپ کی منت ترلے کرنے میں مصروف ہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے تو پاکستانیوں کی اکثریت ان سے ناراض رہتی تھی، خصوصاً جس طرح کی ٹیم انہوں نے قوم کو لیڈ کرنے کے لیے بنائی تھی۔ تب یوتھیے مجھ سے لڑتے تھے کہ یہ تھی خان کی ٹیم، جس کا ڈھنڈورا اس نے بائیس سال پیٹا کہ اس کے پاس دنیا کے بہترین لوگ حکومت چلانے کے لیے موجود ہیں۔ خصوصاً عثمان بزدار کے وزیر اعلیٰ بنائے جانے پر وہ ششدر رہ گئے کہ بھلا وہ کیسے اس طرح کے بندے کو بارہ کروڑ کا صوبہ چلانے کے لیے دے سکتا ہے؟ ابھی ان کی نظروں کا فوکس خیبر پختونخوا کا وزیراعلی محمود خان نہیں تھا جس کی حالت بزدار سے بھی برُی تھی۔ وہ حیران ہوتے تھے کہ خان نے یہ ہیرے کہاں سے تلاش کیے۔

کلاسرہ کہتے ہیں کہ پھر جب پنجاب میں پی ٹی آئی اور بیورو کریسی نے لوٹ مار شروع کی اور ڈپٹی کمشنرز کی سیٹیں بھی بکنا شروع ہو گئیں تو اوور سیز پاکستانیوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ عمران خان سے بیزار ہو گئے۔ انہیں لگتا تھا کہ ان کے ساتھ دھوکا ہوا ہے اور مجھ سے بحث کرتے تھے کہ میں نے کیوں حکومت پر ہاتھ ہولا رکھا ہوا ہے۔ اس پر مجھے اپنے گائوں کے لوگ یاد آ جاتے ہیں جو عمران کے وزیراعظم بننے کے بعد بہت مایوس تھے اور کچھ عرصہ بعد شہباز شریف سے بھی مایوس ہو گئے تھے۔ وہی جو پہلے عمران سے مایوس تھے، اب وہ کہتے ہیں کہ نہیں جناب! خان اگر وزیراعظم ہوتا تو آج ہم امریکہ کو ٹکر دے چکے ہوتے۔ میں ہنس کر پوچھتا ہوں کہ آپ کو امریکہ سے ٹکر کیوں لینی ہے؟ آپ امریکہ میں رہتے ہیں یا امریکہ جا کر رہنا چاہتے ہیں لیکن ٹکر بھی امریکہ کو دینا چاہتے ہیں۔

روؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ میرے ذہن میں یہ بات نہیں سماتی کہ عمران خان امریکہ سے ٹکر کیوں لینا چاہتا تھا۔ اس نے سعودیوں سے بھی ٹکر لی، چینیوں سے بھی لی، یورپی یونین سے بھی ٹکر لی اور امریکہ سے بھی ٹکر لینی تھی مگر اب خود جیل میں ہے جبکہ اس کی پارٹی کے لیڈر انہی امریکیوں اور یورپینز سے اس کی رہائی کے لیے مدد مانگ رہے ہیں جن سے وہ ٹکر لیتا رہا۔ عمران خان اس ملک اور قوم کو بہتری کی راہ پر ڈالنے کے لیے لائے گئے تھے یا انہوں نے اُن ملکوں سے ٹکر لینی تھی؟ آج تک مجھے سمجھ نہیں آئی ان ملکوں سے ٹکر لے کر عمران کو کیا ملنا تھا یا اس میں قوم کا کیا بھلا ہونا تھا۔ امریکہ سے ہمیں جنگی اسلحہ، معاشی امداد، آٹھ دس ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ ملتی ہیں۔ ہمارے بچے وہاں اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھنے جاتے ہیں۔ اس طرح یورپی یونین نے آپ کو ایک ارب ڈالرز کا جی ایس پی پلس سٹیٹس دیا ہوا ہے جس کے تحت ہماری اشیا پر یورپ میں کم ڈیوٹی لگتی ہے، اس سے پاکستان میں ہمارے کارخانے چلتے ہیں اور لوگوں کو روزگار ملا ہوا ہے، فارن ریزرو بھی آتا ہے جس کو رکوانے کے لیے خان صاحب نے آج کل تحریک چلانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سعودی عرب، جس کا ولی عہد عمران کو اپنا بڑا بھائی کہتا تھا، اس سے بھی ٹکر لی حالانکہ اس نے خان دور میں دس، بارہ ارب ڈالرز کا پیکیج دیا تھا جس میں تین، چار ارب ڈالرز کا پٹرول، ڈیزل شامل تھا۔

رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ بدلے میں خان نے الگ سے ایک او آئی سی بنانے کا منصوبہ شروع کر دیا تاکہ ترکیہ، ایران اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر الگ مسلم بلاک بنایا جائے۔ چینی منصوبے جو پاکستان میں چل رہے تھے، ان کو روک دیا گیا۔ برطانیہ کا دو دفعہ دورہ فائنل ہوا لیکن عمران خان نہیں گئے۔ یہ ملک کے غالباً پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے اپنے پونے چار سالہ دور میں برطانیہ کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔ ان سب ممالک کے ساتھ، جو پاکستان کے روایتی دوست اور مددگار رہے ہیں، خان کی مسلسل لڑائی چل رہی تھی۔ ان سب ممالک کے ساتھ پھڈے اور روزانہ ان کے خلاف تقریریں ہو رہی تھیں، اور وہ بھی کھلے عام، عوامی جلسوں میں۔

حکومت سے مذاکرات میں PTI نے اپنے دو مطالبے واپس کیوں لے لیے؟

کلاسرا کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے یوتھیے دوستوں سے پوچھا: مجھے ذرا سمجھائیں کہ دوست ممالک سے لڑنے اور ان کے خلاف تقریریں کرنے کے بعد عمران نے اپنی دوستی کا رخ کس کی طرف بدلا؟ آپ سن کر حیران ہوں گے کہ جدید دنیا کے ممالک سے لڑ بھڑ کر، انہوں نے کہا کہ ہم غلام تھوڑی ہیں، دوست قرار دیا بھی تو افغان طالبان کو۔ ذرا اندازہ کریں کہ خان نے کن قوتوں کو اپنا دشمن بنایا اور کس کو اپنا دوست بنایا۔ اس کے رول ماڈل ہیروز طالبان تھے، جدید دنیا نہیں۔ عمران خان نے ہی ان چالیس ہزار طالبان کو واپس لانے کا منصوبہ بنایا جو پاکستان میں ستر ہزار پاکستانیوں کے قتل کا کریڈٹ لیتے تھے۔ وہ طالبان، جنہوں نے پشاور میں ڈیڑھ سو معصوم بچے قتل کر دیے، انہیں عزت واحترام کے ساتھ واپس سوات لایا جا رہا تھا۔ آج جس امریکہ سے، بقول خان، طالبان نے آزادی حاصل کی تھی، اسی امریکہ سے خان کی آزادی کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ کلاسرا کہتے ہیں کہ اب بتائیں کہ ایسے میں عمران کی ساکھ کیا رہ جاتی ہے اور انہیں بطور لیڈر کتنی سنجیدگی سے لیا جا سکتا ہے۔ وہی عمران خان جو طالبان کو امریکی غلامی کی زنجیریں توڑنے پر مبارکبار دے رہے تھے، آج خود انہی امریکیوں کے ایک ٹویٹ کے محتاج بنے ہوئے ہیں۔

Back to top button