پاکستان کا برا سوچنے والے عمران کی اپنی سیاست زوال کا شکار کیوں ہوئی ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کی جانب سے معیشت کو خراب کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے لیکن دوسری جانب ملک کا برا سوچنے والے کپتان کی اپنی جماعت اس وقت تباہ حالی کا شکار نظر آتی ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اپریل 2022 سے اَب تک، پی۔ٹی۔آئی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پاکستان نہ تو کسی سیاسی بحران کا شکار ہوا اور نہ ہی روایتی عدمِ استحکام کا کوئی ایسا بھونچال آیا کہ دَر و دِیوار لرز اٹھتے اور حکومت کو سنبھالے رکھنا مشکل ہوجاتا۔ البتہ پی۔ٹی۔آئی کی اپنی کشتی اس وقت ایک بھنور میں پھنسی نظر آتی ہے جس کے تختے چرچرا رہے ہیں اور بادبان کی دھجیاں بکھر رہی ہیں، پی ٹی آئی کی کشتی کو سنبھالا دینے کے بجائے مسافر ایک دوسرے کو سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور شام گہری ہورہی ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ عمران خان نے ’عدمِ اعتماد‘ کے ذریعے اقتدار بدر ہونے سے پہلے ہی سائفر کا ناقوس بجایا۔ اِسے پاکستانی جرنیلوں اور امریکیوں کی سازش کا نام دیا۔ ہمدردی کی انقلاب آفریں عوامی لہر اُٹھانے کی کوشش کی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم پی۔ ڈی۔ ایم حکومت کو بھی دھکا نہ دیا جاسکا۔ فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اڑھائی سو سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کئے۔ شہدا کی یادگاروں کو قہر وغضب کا نشانہ بنایا۔ طیارے نذرِ آتش کئے۔ فتنہ پرور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں۔ ملکی سلامتی کے انتہائی حساس معاملات کو بازیچۂِ اطفال بنادیا۔ اپنے عشق میں ہلکان عدلیہ سے عجوبۂِ روزگار فیصلے حاصل کئے۔
لیکن پاکستان کے کسی گوشے میں ایسے بحران یا سیاسی عدمِ استحکام نے انگڑائی نہ لی جو نظم ِ اجتماعی کو مفلوج کردیتا۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ الیکشن 2024 کے بعد، گزشتہ ایک برس میں بھی پی۔ٹی۔آئی مسلسل جتن کرتی رہی کہ ملکی اداروں کو متنازع بنا کر ہموار پانیوں میں تَلَاطُم اُٹھایا جائے۔ 24 نومبر 2024 کو اسلام آباد پر لشکر کشی کو ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ حملہ بھی شرم ناک ہزیمت کا سیاہ داغ چھوڑ گیا۔ پھر پی ٹی آئی کی قیادت نے نیم دِلی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اُکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہوکر گھر لوٹ گئی۔ کبھی یورپی یونین کو درسِ جمہوریت دیتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان ’جی۔ایس۔پی‘ پلس کی رعایت کا حق دار نہیں رہا۔ کبھی آئی۔ایم۔ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پھوٹی کوڑی تک نہ دو۔ کبھی امریکی ارکان کانگریس کی مٹھی گرم کرتے ہوئے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں سرنگیں لگائیں اور پاکستان کو مغلظات سنوائیں۔ دُہائی دی کہ ’’پاکستان کی صورتِ حال غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہوچکی ہے۔‘‘ سفارت کاروں کو جمع کرکے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ایک بھاری بھرکم ’ڈوزیئر‘ آئی۔ایم۔ایف کے حوالے کیاگیا ہے جس میں پاکستان کو ایک سفاک اور انسانیت کُش ریاست باور کرانے کی ’’سعیِٔ جمیل ‘‘کی گئی ہے۔
لیکن الحمدللہ۔ کھُلی ملک دشمنی کی حدوں کو چھوتی ایک بھی مکروہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی بحران پیدا ہوا نہ سیاسی عدمِ استحکام جو ملک کی چُولیں ہلا دیتا۔ عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ نومبر 2024 کے اواخر میں عمران نے سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی پاکستان نہ بھیجیںتا کہ ملکی خزانہ خالی ہوجائے ۔ ادائیگیاں ممکن نہ رہیں اور ملک دیوالیہ ہوجائے۔ اِس سے ایک بڑے اقتصادی بحران کا سونامی جنم لے گا جو ریاست کی بھُربھری دیواروں سے ٹکرائے گا اور شدید نوعیت کے سیاسی عدمِ استحکام کا سیل بلا حکومت کو بہا لے جائیگا۔ پچھلے تین ماہ سے یہ اپیل دیارِ غیر میں رُسوا ہو رہی ہے لیکن پاکستانی کان نہیں دھر رہے۔ کپتان کی کال کے برعکس پاکستانیوں نے دسمبر 2024 میں تین ارب ڈالر پہلے سے زیادہ پاکستان بھیجے۔ جنوری کے آخر میں ترسیلاتِ زَر میں مزید تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوگیا۔
یوں عمران خان کی پاکستان میں سیاسی بحران اور سیاسی عدمِ استحکام پیدا کرنے کی آرزو، اڈیالہ جیل کی راہداریوں کا رزق ہوگئی۔
الحمدللہ! پاکستان نہ عدمِ استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لُغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولاتِ ریاست، مضبوط ادارہ جاتی نظم کے ساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں دہشت گردی کی وارداتیں مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ شورش اور بدامنی کی اس لہر پر قابو پانے کے لئے موثر کردار متعلقہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ اسے سیاسی عدمِ استحکام کے زمرے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا سیاپا کرنے والوں کا ’آزادیِٔ عدلیہ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اُن کا اصل دُکھ یہ ہے کہ اِس سو فی صد آئینی پیش رفت نے، کونوں کھُدروں میں چھپے اُن مہم جوئوں کو بے بس کردیا ہے جو ’ عدمِ استحکام‘ کی فصل کاشت کرنے جا رہے تھے۔
شیر افضل کے بعد مزید لیڈرز کی چھٹی کا امکان، PTI تقسیم کا شکار
عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کی آنکھوں میں سجے، ’عدمِ استحکام‘ کے خوابِ خوش رنگ کو تعبیر میں ڈھالنے کے لئے راستہ فقط ایک ہی تھا کہ وہ 1977 والے قومی اتحاد کی طرح، اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتی۔ اب وہ گئے وقت کو واپس نہیں لا سکتی اور آنے والے وقت کا ہر لمحہ، حسرتِ ناتمام کے نوحے کے سوا کچھ نہیں۔