انڈیا نے شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے سے انکار کیوں کیا؟

بھارتی حکومت کی جانب سے بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حوالگی سے انکار کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ حسینہ واجد اپنے اقتدار کے خاتمے کے بعد بنگلہ دیش سے فرار ہو کر بھارت چلی گئی تھیں جہاں وہ ابھی تک مہمان ہیں۔
تاہم بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے شیخ حسینہ کی حوالگی کی باضابطہ درخواست ملنے کے باوجود بھی بھارت اس پر عمل در آمد کے لیے تیار نظر نہیں آتا۔ انڈیا کا موقف ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف مقدمات ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد درج ہوئے جو کہ سیاسی انتقام پر مبنی ہیں اور ویسے بھی دونوں ملکوں کے مابین ایسا کوئی معاہدہ نہیں جس کے تحت شیخ حسینہ کی حوالگی عمل میں آ سکے۔ یاد رہے کہ ماضی میں شیخ حسینہ کی حکومت کے نریندر مودی حکومت کے ساتھ بہترین سفارتی تعلقات رہے ہیں اور اسی لیے شیخ حسینہ نے بنگلہ دیش سے نکل کر انڈیا میں سیاسی پناہ لی ہے۔
رواں برس اپنی حکومت کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج کے بعد شیخ حسینہ مستعفی ہو کر بنگلہ دیش سے بھارت چلی گئی تھیں جہاں اب وہ نئی دہلی میں قیام پذیر ہیں۔ بنگلہ دیش کے مشیر برائے خارجہ امور توحید حسین نے حا ہی میں اعلان کیا تھا کہ انکی عبوری حکومت نے مختلف کیسز میں مطلوب شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کے لیے باضابطہ طور پر رابطہ کیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے بنگلہ دیشی حکومت کی درخواست موصول ہونے کی تصدیق تو کی تاہم اس پر کسی تبصرے سے گریز کیا۔ بھارت میں خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کو اتنی آسانی کے ساتھ بنگلہ دیش واپس نہیں بھیجا جاسکتا۔
بنگلہ دیش میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر پنک راجن چکرورتی نے بتایا کہ جب فوج نے شیخ حسینہ کو ان کی حفاظت کے پیش نظر بھارت بھیجا تھا تو ان پر کوئی قانونی مقدمہ نہیں تھا۔ ان کے بقول یہی وجہ ہے کہ بھارت کا شیخ حسینہ کو واپس بنگلہ دیش کی تحویل میں دینا ایک پیچیدہ معاملہ بن گیا ہے کیوں کہ عدالتی عمل پر عمل درآمد کے لیے جرائم کے ٹھوس شواہد درکار ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حوالگی کے دو طرفہ معاہدے میں سیاسی استثنا کے ساتھ ساتھ تحفظ اور منصفانہ برتاؤ کی شقیں بھی رکھی گئی ہیں۔ جب تک یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں، حوالگی سے انکار کیا جاسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی قائم مقام حکومت سے تعلق رکھنے والے حکام کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ نے اپنے 15 سالہ دورِ حکومت میں اقتدر پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے کئی بڑے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
دوسری جانب عبوری حکومت میں بطور مشیر ذمے داریاں ادا کرنے والے طالب علم رہنما ناہید اسلام نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں حقیقی جمہوریت کے لیے شیخ حسینہ کو انصاف کے کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ ناہید اسلام نے رواں برس جولائی اور اگست میں ہونے والے طلبہ کے پرامن مظاہروں کا حوالہ دیا۔ ان مظاہروں نے سیکیورٹی فورسز کے کریک ڈاؤن کے بعد پر تشدد احتجاج کی شکل اختیار کرلی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جولائی اور اگست کے مظاہروں میں ایک ہزار ہلاکتیں ہوئیں جن میں طلبہ، دیگر مظاہرین اور بچے بھی شامل تھے۔ ان کے بقول شیخ حسینہ ان سب کیسز میں مرکزی ملزم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شیخ حسینہ پر بنگلہ دیش میں مقدمہ چلانا چاہیے اور ان کے اقدامات کے لیے انکا احتساب ہونا چاہیے۔
یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے لیے بنائے گئے انٹرنیشنل کرائم ٹریبیونل سے شیخ حسینہ اور انکے متعلقین کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ ان کے خلاف 2024 میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران قتلِ عام کی منصوبہ بندی اور اپنے 15 سالہ دورِ اقتداد میں انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ سٹوڈنٹ لیڈر ناہید اسلام کا کہنا ہے کہ رواں برس احتجاجی مظاہروں کے دوران جرائم کے علاوہ شیخ حسینہ اپنی حکومت میں کئی غیر قانونی اقدامات کی بھی ذمے دار ہیں۔ انکے مطابق شیخ حسینہ کی حکومت ہزاروں افراد کو لاپتا کرنے اور ماورائے عدالت قتل کرنے کے جرائم میں ملوث ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی حکومت کے دوران بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں کی بھی ملزم ہیں۔
حکومت کو PTI سے مذاکرات میں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں؟
تاہم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ کے ایک سینئر رہنما نے ان کے خلاف الزامات کو ’بے بنیاد‘ قرار دیا ہے۔عوامی لیگ کے آرگنائزنگ سیکریٹری سیف العالم چوہدری کا کہنا ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتل اور دیگر بے ضابطگیوں کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ پانچ اگست کے بعد سے طویل وقت گزرنے کے باوجود ان کے یا ان کی حکومت کے خلاف کسی خاص الزام میں کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آیا ہے۔