عمران دور میں میڈیا پر لگائی گئی پابندیوں میں اضافہ کیوں ہو گیا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کے خلاف کارروائی کی جو بری روایت قائم کی گئی تھی اس پر موجودہ دور حکومت میں بھی اسی طرح عمل درآمد جاری ہے۔

3 مارچ 2025 کو جب  اے آر وائی نیوز چینل پر پرائم ٹائم پروگرام ’آف دا ریکارڈ‘ نشر ہوا تو اس میں روزانہ کے برعکس عمرانڈو کہلانے والے اینکر کاشف عباسی کی بجائے اسی چینل کے ایک اور اینکر اشفاق ستی سکرین پر نظر آئے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ پروگرام کے اختتام پر ’آف دا ریکارڈ‘ کے 21 جنوری کے پروگرام میں کی گئی غیر مہذب پر گفتگو پر معذرت بھی کی گئی اور کاشف عباسی کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کیا گیا۔ اشفاق ستی نے کہا کہ ’گذشتہ پروگرام میں میزبان نے اپنی ذاتی حیثیت سے رائے پیش کی، جس کا ادارے سے کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو ادارہ اس پر معذرت خوا ہے۔‘

واضح رہے کہ فروری کے مہینے میں یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ کاشف عباسی کو انکے مسلسل بڑھتے ہوئے عمرانڈو پن کی وجہ سے آف ایئر کر دیا گیا ہے، تاہم اس کی وجوہات کے حوالے سے ابھی قیاس آرائیاں جاری ہی تھیں کہ اگلے ہی دن  اے آر وائی کیجانب سے کاشف عباسی کے بیان سے اظہار لاتعلقی بھی کر دیا گیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، کاشف کے علاوہ بھی چند سینیئر عمرانڈو اینکرز کے خلاف کاروائیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے جو کہ ریڈ لائن کراس کرنے کے مرتکب ہو رہے تھے۔

بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں صحافیوں کو سینسر کرنے یا پروگرام اینکرز کو آف ایئر کرنے کے پیچھے کیا وجوہات کار فرما ہوتی ہیں؟ اس حوالے سے سید طلعت حسین نے تصدیق کی کہ انھیں ابھی آف ایئر نہیں کیا گیا بلکہ وہ ذاتی وجوہات کی بنیاد پر اپنا پروگرام نہیں کر رہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ لوگ اس بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں نے یہ جھوٹا پروپگینڈا کیا کہ مجھے سینسر کر دیا گیا، لیکن درحقیقت میرا سکرین سے غائب ہونا اور چند دیگر لوگوں کا بھی سکرین سے ہٹ جانا، محض ایک اتفاق ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’میں آف ایئر بنیادی طور پر ذاتی وجوہات کی بنا پر ہوں۔ اب ماحول ایسا بنا ہوا ہے کہ آپ اس ملک میں وقتی طور پر بیمار بھی نہیں ہو سکتے اور اگر آپ بیمار ہو جائیں تو لوگ کہیں گے کہ آپ آف ایئر ہو گئے۔انکا کہنا تھا کہ یہ کہنا بہت آسان تھا کہ میں واقعی آف ایئر ہوا ہوں، یوں مجھے جلدی اور سستی شہرت مل جاتی ہے، بی بی سی آپ کا انٹرویو کر لیتا ہے اور آپ خوا مخوا کے ہیرو بن جاتے ہیں۔‘ انھوں نے بارہا اصرار کیا کہ ’میرا آف ایئر ہونا ذاتی وجوہات کی بنیاد پر ہے اور جوں ہی یہ وجوہات ختم ہوئیں میں واپس آ جاؤں گا۔‘

جب طلعت حسین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ سما کی سکرین سے ہی واپس آئیں گے یا کسی اور پلیٹ فارم سے تو انھوں نے کہا کہ ’میں سما ٹی وی سے ہی واپس آؤں گا۔ بی بی سی نے کاشف عباسی سے بھی بارہا رابطے کی کوشش کی لیکن ان سے بات نہیں ہو سکی، تاہم اے آر وائی کی جانب سے 21 جنوری کے پروگرام پر معذرت کر لی گئی ہے اور کاشف عباسی کے بیان سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ 21 جنوری کو اپنے پروگرام میں کاشف عباسی نے موجودہ حکمران اتحاد پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ طاقت کی سیاست نے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔انھوں نے کہا تھا کہ ملک میں آئین کا قتل کیا گیا اور اسے دفنا دیا گیا اور سب کا اس میں ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ہم ایک بدقسمت قوم ہیں جہاں سیاسی فائدے کے لیے رازداری اور عزت کے تقدس کو بھی پامال کیا گیا۔‘ کاشف عباسی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے خواتین اور بچوں کو ان کے گھروں سے اغوا کرنا معمول بن گیا ہے۔

پاکستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی صحافی کو آف ایئر کیا گیا ہو، ماضی میں بھی اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ عمران خان کے دور حکومت میں آف ایئر ہونے والے جیو نیوز کے اینکر حامد میر نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی ادارے جب براہ راست کارروائی نہیں کر سکتے تو وہ آپ کو آف ایئر کروا دیتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان ریاستی اداروں کو تو چاہیے کہ وہ پیمرا کے ذریعے کارروائی کریں۔ انکا کہنا تھا کہ ’اگر میں نے کوئی غلط کام کیا ہے تو پیمرا ایک ادرہ ہے، جس کا کام ہے کہ وہ کارروائی کرے، لیکن جب ریاستی ادارے پیمرا کے ذریعے کارروائی کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر وہ چینل کی انتظامیہ پر دباؤ ڈالتے ہیں اور انتظامیہ کے ذریعے آف ایئر کروا دیتے ہیں۔‘

انھوں نے اپنی اور اپنے چینل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جب عمران خان وزیراعظم تھے تو جنگ گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو نیب نے 35 برس پرانے مقدمے میں بلا کر بند کر دیا۔ وہ آٹھ نو ماہ بند رہے، عدالتیں کچھ بھی نہ کر سکیں، پھر اسی عرصے میں مجھے نو ماہ کے لیے آف ایئر کیا گیا، ہم عدالتوں میں جاتے تھے، کھڑے ہوتے تھے، عدالت کچھ نہیں کر سکتی تھی۔‘ حامد میر نے مزید کہا کہ ’عمران خان کے دور میں جو سکھایا گیا کہ میڈیا کو کیسے ہینڈل کرنا ہے، اس پر اب شہباز شریف کی حکومت عمل پیرا ہے۔ یہ اسی راستے پر چل رہے ہیں۔‘

حامد میر نے کہا کہ ’جس ملک میں جمہوریت ہی نہ ہو، جہاں آئین و قانون کو کوئی مانتا ہی نہ ہو، جہاں عدلیہ بے بس ہو، تو وہاں اگر کوئی چینل کی مینجمینٹ کو کہے کہ کسی بندے کو آف ایئر کرو ورنہ ہم تمہارے اشتہار بند کر دیں گے، تو وہ ایسا ہی کریں گے۔‘

پاکستان کے ایک اخبار سے منسلک اور ماضی میں خود بھی آف ایئر ہونے والے ایک سینیئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی۔ انھوں نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ آئینے میں جو شکل نظر آ رہی ہے وہ درست نہیں یعنی انکا آئینہ گڑبڑ کر رہا ہے، اس لیے آئینے کو ہی توڑ دو۔‘ انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ہمیشہ ایسا ہی رہا، میڈیا پر دباؤ ہمیشہ ہی رہا، کچھ ہم عادی ہوتے جا رہے ہیں اور کچھ دباؤ ڈالنے والوں کا صبر کم ہوتا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’الیکٹرانک میڈیا میں زیادہ تر مالکان وہ ہیں، جنکے اپنے کاروباری خدشات پیں۔ اب بلیک میلنگ یا دباؤ براہ راست صحافیوں پر نہیں رہا بلکہ اب مالکان کو ان کے کاروبار کے حوالے سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔

انھوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’ان مالکان نے سرکاری اداوں کی جانب سے دباؤ کے بعد میڈیا کی آڑ لینے کی کوشش کی۔ انکا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے ان کے کاروبار پر دباؤ نہیں آئے گا لیکن اب صورتحال الٹ ہو گئی ہے اور میڈیا کی وجہ سے ان کے کاروبار پر پریشر آ رہا ہے۔

خان کی رہائی کی بجائے حکومت کا شکریہ: ٹرمپ نے بجلیاں گرا دیں

سینیئر اینکر عاصمہ شیرازی نے اس بارے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ یہ چینلز پر منحصر ہوتا ہے کہ ان پر کتنا دباؤ آتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ کچھ چینلز میں مالکان یا انتظامیہ کی جانب سے گائیڈ لائنز آتی ہیں لیکن ہر چینل میں ایسا نہیں ہوتا۔ جیسے میرے چینل کی جانب سے واضح گائیڈ لائن ہے کہ کسی پر الزام نہیں لگانا، بہتان تراشی نہیں کرنی، یا ایسا الزام نہیں لگانا جسے آپ ثابت نہ کر سکیں۔ پرائم ٹائم میں آنے والے صحافی خود اس بات کا بڑا دھیان رکھتے ہیں کہ انکی اپنی ایڈیٹوریل لائن کیا ہے، وہ کس چیز پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کس چیز کو زیادہ زیر بحث لانا چاہتے ہیں۔انھوں نے اپنی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے دور میں مجھ پر بھی بہت دباؤ آیا اور مجھے آف ایئر کرنے کی کوشش کی گئی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے وہ وقت بھی دیکھ رکھا ہے جب لائیو پروگرام کے دوران ہمیں دھمکیوں کے فون آ جاتے تھے کہ اس موضوع پر بات کیوں ہو رہی ہے۔ عمران خان کے دور میں تو عسکری حلقوں سے فون آتے تھے۔‘

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ’صحافی جانتا ہے کہ اس نے کیسے بات کرنی ہے اور وہ اپنی بات کو کہہ بھی جاتا ہے، با مقصد تنقید پر تو کبھی کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ جیسے الیکشن کے بعد ہم سب نے اس کی ساکھ کے بارے میں بات کی اور سوال اٹھائے۔‘ نیشنل پریس کلب کی سیکرٹری نئیر علی سے جب صحافیوں پر دباؤ اور پابندیوں کے حوالے سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا صحافتی تنظیمیں ہمیشہ سے ایسے تمام اقدامات کی مذمت کرتی آئی ہیں جن کے ذریعے صحافیوں کی سٹوریز کو روکا جاتا ہے یا ان کو آف ایئر کر کے آزادئ اظہار رائے پر قدغن لگائی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ میڈیا مالکان کو چاہیے کہ وہ کسی قسم کے دباؤ آئے بغیر ایسے تمام صحافیوں کو ان کے عہدوں پر بحال کریں۔

Back to top button