شہباز شریف اپنے سابقہ پرنسپل سیکرٹری کو کابینہ میں کیوں لائے ؟

معلوم ہوا ہے کہ شہباز شریف کے سابقہ پرنسپل سیکرٹری ڈاکٹر توقیر شاہ وزیراعظم کی ذاتی خواہش پر ورلڈ بینک کی نوکری چھوڑ کر پاکستان واپس آئے ہیں جس کے بعد انہیں کابینہ کا حصہ بنا لیا گیا ہے۔ شہباز شریف کے دیرینہ قابل بھروسہ بیوروکریٹ ڈاکٹر توقیر شاہ وزیر اعظم آفس میں بطور مشیر ان کی ٹیم میں دوبارہ شامل ہوئے ہیں اور انہیں وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔

ورلڈ بینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر توقیر نے حال ہی میں وزیراعظم کی درخواست پر ورلڈ بینک سے قبل از وقت استعفی دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم آفس کے روزمرہ کے امور پر عدم اطمینان کے بعد شہباز شریف نے انہیں بطور مشیر اپنی ٹیم میں واپس شامل کیا ہے۔ ڈاکٹر توقیر اپنے متوازن نقطہ نظر اور حکومت کے سیاسی تقاضوں اور قانونی اور اچھی طرز حکمرانی کے تقاضوں کے مطلوبہ امتزاج کیلئے مشہور ہیں۔

سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم آفس کی کارکردگی بڑھانے کیلئے ڈاکٹر توقیر شاہ کی واپسی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ فائلوں اور معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف ڈاکٹر توقیر کو ’’ڈاکٹر ٹی‘‘ کرکے لکھتے ہیں۔  ان کی موجودہ وزیر اعظم کے ساتھ 28 سالہ طویل وابستگی ہے اور انہیں شہباز شریف کا سب سے قابل بھروسہ ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر توقیر نے 1991 میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس میں شمولیت اختیار کی تھی۔  انہیں سب سے پہلے تب کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے ہونہار نوجوان افسر کی شہرت ہونے کی وجہ سے اپنے ڈپٹی سیکرٹری کے طور پر منتخب کیا تھا۔ آنے والے برسوں میں، ڈاکٹر توقیر ترقی کرتے گئے، وزیراعلیٰ پنجاب کے پرنسپل سیکرٹری اور بعد میں وزیر اعظم شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر خدمات انجام دیں۔

انصار عباسی کے بقول ڈاکٹر توقیر شاہ کی پیشہ ورانہ قابلیت اور دیانتداری کا شہباز شریف عوامی سطح پر اعتراف کر چکے ہیں۔ جنرل مشرف کے دور حکومت اور نیب کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کے دور میں ان کے سرکاری طرز عمل کی سخت جانچ پڑتال کے باوجود ان کیخلاف کبھی نہ تو کوئی کیس بنا ہے اور نہ ہی کرپشن کا الزام لگا ہے۔  قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے سرکاری پلاٹ لینے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ استحقاق ہے جو اکثر سینئر بیوروکریٹس حاصل کرتے ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کا دور مکمل ہونے پر ڈاکٹر توقیر نے ورلڈ بینک میں اپنی تقرری سے قبل نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے پرنسپل سیکرٹری کے طور پر کام جاری رکھا۔

وزیراعظم ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ توقیر شاہ کے جانے کے بعد سے وزیراعظم ہاؤس کے معاملات ویسے نہیں چل رہے تھے جیسے کہ شہباز شریف چاہتے تھے لہذا انہیں واپس لانے کا فیصلہ کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم یہ محسوس کرتے ہیں کہ نون لیگ کے موجودہ دور حکومت میں ارکان پارلیمنٹ بالخصوص اتحادی جماعتوں کے سیاسی معاملات سے نمٹنے میں وزیر اعظم کے دفتر میں واضح طور پر فقدان رہا ہے جس سے ارکان پارلیمنٹ بے چین نظر آتے ہیں۔

ڈاکٹر توقیر کے ساتھ کام کرنے والے ایک سرکاری ملازم کا کہنا تھا کہ ’’سیاستدان ڈاکٹر توقیر کو ان کے باوقار طرز عمل، تحمل اور سیاسی کلچر کی گہری سمجھ بوجھ رکھنے کی وجہ سے پسند کرتے ہیں، دوسری طرف سرکاری ملازمین انہیں قابل رسائی، قابل اعتماد اور ایسا شخص سمجھتے ہیں جو ہر وقت سب کی بات سننے کیلئے موجود رہتا ہے۔‘‘

پاکستانی حکومت نے ٹرمپ کو رام کرنے کے لیے ماسٹر سٹروک کھیل ڈالا

شہباز شریف جانتے ہیں کہ ان کی کامیابیوں میں ڈاکٹر توقیر کی عملداری اور کرائسز مینجمنٹ کی مہارت کا حصہ ہے جس کی وجہ سے شہباز نے انہیں 45؍ سال کی عمر میں اپنا پرنسپل سیکرٹری منتخب کیا تھا۔ ان کی طاقت ان کے مشورے کی آزادی میں تھی۔

سینیئر صحافی انصار عباسی بتاتے ہیں کہ 2022 میں ایک آڈیو لیک میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈاکٹر توقیر وزیراعظم شہباز شریف کو مریم نواز کی جانب سے اپنے داماد کیلئے مانگی گئی ایک فیور نہ دینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران شہباز شریف نے ان پر ڈاکٹر توقیر پر اس قدر انحصار کیا ہے کہ اس بار جب ڈاکٹر ٹی چلے گئے تو انہیں ان کی کمی کا احساس ہوا۔ اس سے پہلے ورلڈ بینک میں ڈاکٹر توقیر کے دور میں ہی ورلڈ بینک نے پاکستان کو کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت 40 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ ڈاکٹر توقیر نے اپنے پورے کیریئر میں سول سروس کے تمام تربیتی کورسز میں ٹاپ کیا۔ اپنے مثالی ریکارڈ کے باوجود، ڈاکٹر توقیر کو وزیر اعظم عمران خان کے دور میں نظر انداز کیا گیا، اور انہیں او ایس ڈی بنانے کے علاوہ گریڈ 22 میں ترقی بھی نہیں دی گئی تھی۔

Back to top button