تحریک انصاف دوبارہ سے دھوکہ باز مولانا کا ساتھ کیوں مانگنے لگی ؟

26 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے پی ٹی آئی کو پہلے لارا اور پھر تھوک لگا کر حکومت کے ساتھ چلے جانے کے باوجود تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر مولانا کو 8 فروری سے شروع ہونے والی اپنی حکومت مخالف تحریک میں ساتھ ملانے کی کوششوں کا اغاز کر دیا ہے، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا ایک جہاندیدہ سیاستدان ہونے کے ناطے اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا شکار عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملانے کی غلطی نہیں کریں گے جو ماضی میں انہیں مولانا ڈیزل قرار دیتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 26 نومبر کو اسلام آباد میں دھرنے کی ناکامی اور پھر عمران خان کو 14 برس قید کی سزا ہو جانے کے بعد سے پی ٹی آئی دوبارہ سے حکومت کے خلاف ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش شروع کر چکی ہے۔ تاہم سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر پی ٹی آئی چند حکومت مخالف جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا بھی لے تو بھی عمران خان اور انکی ممکنہ اتحادی جماعتیں مل کر بھی پارلیمنٹ میں کوئی تبدیلی نہیں لا سکتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عمران خان کی خواہش پر تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج کی تین کالز اوپر تلے ناکام ہونے کے بعد اب پارٹی کی سٹریٹ پاور ختم ہوتی نظر اتی ہے لہذا اب مذید کسی حکومت مخالف تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔

حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے بعد انہیں تارپیڈو کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت مخالف حکمت عملی ایک نئے موڑ پر پہنچ چکی ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک بار پھر دیگر سیاسی جماعتوں اور شخصیات کے ساتھ نئے اتحاد بنانے کی کوشش کر دی ہے۔ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے ایک وفد نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں حکومت کے خلاف ممکنہ اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ یہ ملاقات سیاسی اور عوامی حلقوں میں ایک بڑی پیش رفت سمجھی جا رہی ہے، کیونکہ جے یو آئی ف اور پی ٹی آئی ماضی میں ایک دوسرے کے سخت سیاسی مخالف رہے ہیں، خاص طور پر خیبر پختونخوا میں۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کہ آیا یہ ممکنہ اپوزیشن اتحاد عوامی توقعات پر پورا اتر سکتا ہے، کیا ایسا اتحاد حکومت کی طاقت میں کمی لا سکتا ہے اور کیا یہ حکومت کو ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنے سے روک سکتا ہے؟ سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے حلقوں میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی ایک دوسرے کو کیا دے سکتے ہیں۔ اس حوالے سے جے یو آئی کے سینیئر سینیٹر کامران مرتضی کہتے ہیں کہ فی الحال ہم انتظار کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی دراصل ہم سے چاہتی کیا ہے کیونکہ انہوں نے پہل کی ہے تو وہ ہی بتائیں گے کہ ان کے ذہن میں کیا ہے۔ اس کے بعد ہی ہماری جانب دے کوئی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ جے یو آئی کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کے لیے کیا ہے اور پی ٹی آئی کس طرح ہمارے کام آ سکتی ہے۔

سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی جو اپوزیشن اتحاد بنانے کی کوشش کر رہی ہے اس کا پارلیمنٹ میں تبدیلی سے کوئی تعلق نہیں بنتا اور نہ ہی دونوں جماعتیں مل کرحکومت کو ہٹا سکتی ہیں۔ ‍زیادہ سے زیادہ دونوں جماعتیں مل کر عوامی بیانیے کی حد تک یا مل کر احتجاج کرنے کی کوئی حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی شاید مولانا فضل الرحمان کی مذاکرات کی اہلیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر زرقا کہتی ہیں کہ میں ابھی یہ تو نہیں کہہ سکتی کہ پارٹی لیڈرشپ کیا فیصلہ کرے گی لیکن میرے خیال سے مولانا فضل الرحمان ایک زیرک سیاستدان ہیں، جو سیاسی جوڑ توڑ میں مہارت رکھتے ہیں۔ مولانا صاحب کے حکومت اور اداروں کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ وہ بظاہر ناممکن جگہ پر بھی جگہ بنا سکتے اور ان کی اس صلاحیت سے لازمی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر زرقا کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتیں مل کر بھی حکومت کو من مانی سے نہیں روک سکتیں کیونکہ پارلیمنٹ میں نمبر گیم چلتی ہے اور حکومت چلانے کے لیے نمبر ان کے پاس پورے ہیں۔

کیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صورت میں دجال کا ظہور ہو چکا ہے؟

جے یو آئی ف کے رہنما سینیٹر کامران مرتضیٰ کے مطابق پی ٹی آئی نے اب تک جو سٹریٹ پاور دکھائی تھی اس کا 26 نومبر کو دھڑن تختہ ہو چکا لہذا اب دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی شاید جے یو آئی کے عوامی حمایت سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو بتانا ہوگا کہ وہ جے یو ائی سے کس قسم کی سپورٹ چاہتی ہے۔ اسکے بعد ہی پارٹی لیڈر شپ فیصلہ کرے گی کہ دونوں جماعتیں کس حد تک اکٹھے چل سکتی ہیں۔ لیکن انکا کہنا تھا کہ جواب میں پی ٹی آئی کو بھی ہمیں کچھ دینا پڑے گا کیونکہ یہ اتحاد یقینا یک طرفہ تو نہیں ہو سکتا۔ ان کے بقول، پی ٹی آئی اگر جے یو آئی کو اگر قائمہ کمیٹیوں میں زیادہ نمائندگی آفر کرے اور اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن میں نمائندگی دے تو ان کی جماعت بھی جس حد تک ممکن ہو گا عمران خان کی مدد کرنے بارے سوچ سکتی ہے۔‘‘

Back to top button