آرمی چیف کو ایک سخت تر بیانیہ اپنانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ شہباز شریف حکومت کا عمران خان سے نمٹنے کیلئے کوئی کاونٹر بیانیہ نہ بنانے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خود ایک سخت بیانیہ بنانا شروع کر دیا ہے جسکا اظہار انہوں نے اپنی ایک حالیہ دھواں دھار تقریر میں بھی کیا۔

روزنامہ جنگ کے لیے تحریر کردہ اپنے کالم میں سہیل وڑائچ نے تین کردار تخلیق کیے ہیں، جن میں پہلا ہے چیتا یعنی عمران خان، دوسرا کردار ببر شیر ہے، یعنی آرمی چیف، جب کہ تیسرا کردار چھوٹا شیر ہے، یعنی شہباز شریف۔ سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ بالآخر وہی ہوا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ پنجرے میں بند چیتے کے زہریلے بیانیے کا کوئی سیاسی توڑ نہیں ہو رہا تھا۔ چھوٹا شیر صرف معاشی بہتری کے بیانیے کے زور پر چیتے کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ سیاسی بیانیے کی کمزوری، چھوٹے شیر کی سیاسی گرفت کے راستے میں بڑی رکاوٹ بن چکی تھی اور یہ خلا چھوٹے شیر کی حکومت اور حیثیت کیلئے خطرناک ہوتا جا رہا تھا، لہٰذا اب ببر شیر ایک طاقتور بیانیے کیساتھ دھاڑتے ہوئے چیتے کے سامنے آ کھڑا ہوا یے۔

ببر شیر ہی چھوٹے شیر کا سہارا اور مضبوط ترین بازو ہے لیکن ببر شیر کی توجہ صرف خاکی کچھار پر ہی ہے۔ خاکی کچھار کا مکین ببر شیر کھلے عام جنگل میں کم ہی دکھائی دیتا ہے، وہ بیان بازی اور ملنے ملانے پر یقین نہیں رکھتا، اسے تعلقات عامہ اور سیاسی ڈائیلاگ سے بھی پرہیز ہے، لیکن اسلام آباد کے اوورسیز کنونشن میں ببر شیر کی تقریر جوشیلی، جذباتی اور حب الوطنی سے بھرپور تھی، اسکا عزم اور ارادہ اسکے انگ انگ سے جھلک رہا تھا۔ خاکی وردی میں ملبوس ببر شیر نے نہ صرف دہشت گروں کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کیا بلکہ تین برس کے اندر پاکستان کے 125 ارب ڈالرز کے قرضے اتارنے کا وعدہ کر کے ایک نئی امید بھی پیدا کر دی۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ویسے تو پہلے بھی اس ملک میں صرف دو ہی اصل فریق تھے یعنی چیتا اور ببر شیر۔ لہٰذا چھوٹا شیر اور پیپلئے ہاتھی ببر شیر کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں، گویا اب اصلی فریق ببر شیر پوری طاقت، جوش اور جذبے کے ساتھ سامنے ا چکا ہے۔ یعنی اب دونوں اصلی فریقوں کے درمیان جنگ کا اعلان ہو چکا ہے۔ اتحادی چیتے کے ہوں یا ببر شیر کے وہ آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ ماضی کی تاریخ ہی مستقبل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگایا تو قومی اتحاد سے مدد مانگی، ضیا نے بھٹو کی پھانسی تک یعنی دو سال تک قومی اتحاد کے ناز نخرے برداشت کئے، اس نے انہیں کابینہ میں بھی شامل کیا، لیکن بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جنرل ضیاء کو قومی اتحاد کی سیاسی حمایت کی ضرورت نہ رہی کیونکہ ضیاء خود بھٹو مخالفوں اور پیپلز پارٹی کے دشمنوں کا محبوب لیڈر بن چکا تھا۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کو غیر متعلق کرکے اپنی پارٹی مسلم لیگ ق کھڑی کی۔ مگر اس زمانے میں بھی سیاست اور طاقت کا اصل مرکز جنرل مشرف خود تھے یعنی پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف جو بیانیہ آج بھی موجود ہے اس بیانیے کے پہلے لیڈر جنرل مشرف خود تھے، بعدازاں اسی بیانیے کو چیتے اور اسکے حامی خاکی شیروں نے اپنا لیا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ عرصہ دراز سے یہ سرگوشی جاری تھی کہ بالآخر سیاست اصل فریقوں کی طرف لوٹے گی، چیتے کی سیاست کا توڑ ڈھونڈنے کا کریڈٹ چونکہ صرف ببر شیر کو جاتا ہے لہٰذا اس کارنامے پر کامیابی کے ہار بھی اس کے گلے میں ہی پڑیں گے۔ ببر شیر کے دھاڑنے سے نہ صرف دہشت گردوں کی امیدوں پر اوس پڑ گئی بلکہ سیاسی بونے بھی لرز گئے۔ دوسری طرف چیتے کی ضد کے مخالف چڑیاں اور طوطے چہچہانے لگے۔ ایسے میں شرارتی بندر اور چالاک لومڑ کہاں چپ بیٹھنے والے تھے، وہ بھی میدان میں آ گئے، اس دوران مایوس چھچھوندر نے چھوٹے شیر کو یہ چورن بیچنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا قد کم ہو گیا ہے۔ لومڑ نے بھی ببر شیر اور چھوٹے شیر کو آپس میں لڑانے کی کوشش شروع کر دی۔ ایسے میں اگر واقعی ان دونوں کی لڑائی ہو گئی تو چیتے کا راستہ ہموار ہو جائے گا، جنگل کے بندر نے بھی یہ ڈھول بجانا شروع کر دیا یے کہ یہاں کوئی آئینی بندوبست نہیں بلکہ مارشل لا لگانے والا ہی ملک سنبھالے گا۔ تاہم ببر شیر نے وضاحت کی ہے کہ پاکستان کو ہارڈ سٹیٹ بنانے کا مطلب مارشل لا لگانا نہیں بلکہ ریاست کی رٹ بحال کرنا ہے۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کا بھرم کیسے توڑا ؟

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بندروں، لومڑوں اور چھچھوندروں کی چاندی ہمیشہ تب ہوتی ہے جب لڑائی ہو اور آمریت چھا جائے، ماضی میں جب جب ایسا ہوا، تب تب جنگل ویران ہوا، اناج اور سرمایہ، دونوں کو نقصان پہنچا اور ملک انارکی کی طرف گیا۔ سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ چلتے چلتے میں تقدیر کے اتار چڑھاؤ کے حوالے سے ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ہوا یوں کہ جب 1988 میں جنرل ضیا کا جہاز پھٹا تو لاہور کےمینار پاکستان پر اسکی غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کا اعلان ہوا کیونکہ موصوف کی ڈیڈ باڈی تو ملی نہیں تھی۔ روزنامہ جنگ کے نیوز روم کے درجن سے زائد صحافیوں نے فیصلہ کیا کہ آج ایک غیر رسمی سروے کیا جائے اور ضیاء کے کٹرحامیوں سے پوچھا جائے کہ اس کا سیاسی جانشین نواز شریف ہو گا یا نہیں۔ سروے کا دلچسپ نتیجہ یہ نکلا کہ نماز جنازہ پڑھنے والوں میں سے 90 فیصد نے نواز شریف کو ضیاء الحق کا سیاسی جانشین تسلیم نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ انکے خیال میں یہ تھی کہ نواز شریف پیپلز پارٹی اور بھٹو کی مخالفت میں ضیاءالحق جیسی کارکردگی کا حامل نہیں۔ نوازشریف کے امیج میکرز نے اس کمزوری کو جان لیا اور 1988ء کے الیکشن سے پہلے اس طرح کی خبریں شائع کروائی گئیں کہ ’’الذوالفقار کے نشانے پر پہلا سیاستدان نواز شریف ہے‘‘، ’’نواز شریف اپنے دونوں بیٹوں کوفوجی بنائیں گے‘‘، ’’نواز شریف میڈ ان پاکستان ہے اور بے نظیر بھٹو ڈارلنگ آف دی ویسٹ ہیں‘‘۔ ایسی خبروں کی مسلسل اشاعت نے رائے عامہ پر زبردست اثر ڈالا اور بجائے ضیا کے بیٹے اعجاز الحق کے بھٹو مخالف لوگوں کے لیڈر نواز شریف بن گئے۔ پھر کئی برس نواز شریف خود کو ضیا کا سیاسی وارث قرار دے کر پیپلز پارٹی مخالف ووٹ بینک پر فتح یاب ہوتے رہے۔ اس مثال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیانیہ بھی بدل سکتا ہے اور بیانیے کی اونر شپ بھی۔ شرط صرف کوشش ہے۔

Back to top button