صدر زرداری اور شہباز شریف ملاقات دوبارہ بے نتیجہ کیوں رہی؟

وزیر اعظم شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری کے مابین ملاقات کے باوجود کوئی بڑا بریک تھرو نہ ہو سکا۔ وزیر اعظم  صدر آصف علی زرداری کے سامنے لائے گئے تحفظات کا ازالہ کرنے میں یکسر ناکام رہے جبکہ شہباز شریف پیپلزپارٹی کی جانب سے پنجاب حکومت بارے اعتراضات کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ اعلی سطحی ملاقات کے باوجود پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے مابین اختلافی امور طے نہ ہونے کے بعد پیپلزپارٹی رہنماؤں نے پارٹی قیادت سے تحفظات کے ازالے اور مطالبات کی منظوری کیلئے راست حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

مبصرین کے مطابق8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد اقتدار میں موجود ہے لیکن دونوں جماعتوں کے راستے جدا جدا ہیں اس کا اظہار چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو اپنے خطابات میں کرتے رہتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے بقول الیکشن کے بعد نون لیگ کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت سازی کے باوجود پیپلزپارٹی کو آئینی عہدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی کو زیادہ شکایات پنجاب حکومت سے ہیں پنجاب میں پاور شیئرنگ، قانونی معاملات میں بلاول بھٹو زرداری اور گورنر پنجاب سلیم حیدر کے کھل کر تخفظات کے اظہار کے باوجود کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے۔ یہاں تک کہ اس حوالے سے ہونے والے کمیٹیوں کے متعدد اجلاس بھی بے نتیجہ رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق پنجاب میں دونوں جماعتوں کے درمیان کوآرڈنیشن نہیں ہے جبکہ پیپلزپارٹی مستقبل قریب میں بھی پاور شیئرنگ کے معاملے میں مسلم لیگ ن کے حوالے سے پرامید نہیں۔

خیال رہے کہ 8 فروری کے جنرل الیکشن کے بعد پیپلزپارٹی اور ن لیگ نے وفاق میں اتحاد کیا جس کے تحت پیپلزپارٹی نے صدر، چیئرمین سینیٹ اوردیگر آئینی عہدے حاصل کیے جبکہ ن لیگ نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔یہ شراکتِ اقتدار پیپلزپارٹی کیلیے عہدوں کی سطح پر کامیاب رہی لیکن عملی طور پر حکومتی پالیسیوں پر ان کا اثرمحدود رہا پارٹی رہنماؤں کے مطابق ن لیگ کے ساتھ اتحاد میں ہونے کے باوجود نہ تو حکومت کی جانب سے اہم  امور بارے مشاورت کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی قانون سازی کیلیے اعتماد میں لیا جاتا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے بھی اس حوالے سے اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار وزیر اعظم شہبازشریف سے بھی کیا ہے کہ ن لیگ ان کی توقعات پر پورا نہیں اتری، منصب سنبھالنے کے بعد صدر مملکت آصف علی زرداری دو بار جبکہ بلاول بھٹو پانچ بار لاہور آئے تاہم وزیر اعلی مریم نواز نہ تو صدر زرداری کے استقبال کیلئے ایئرپورٹ گئیں اور نہ ہی بلاول بھٹو سے کوئی ملاقات کی۔

مبصرین کے مطابق پاور شیئرنگ کے حوالے سے ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے کئی اجلاس بے سود رہے، یہاں تک کہ گورنر پنجاب سلیم حیدرنے صوبہ میں پیپلزپارٹی کی لڑائی لڑتے ہوئے پاور شیئرنگ کے حوالے سے ن لیگ سے علیحدگی کا بھی کہہ دیا اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی حالات سے آگاہ کردیا۔بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر وزیراعظم شہبازشریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات کے ازالے کیلئے کمیٹی تو بنادی ہے لیکن ابھی تک اس کا بھی کوئی رزلٹ نہیں نکل سکا ہے۔

ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی اور نون لیگ کی کمیٹیوں کے مابین ہونے والی حالیہ مذاکراتی نشست کے دوران پیپلزپارٹی نے حکومتی کمیٹی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا، مذاکراتی اجلاس میں پیپلزپارٹی رہنماؤں نے کہا ‘‘ہمارے ساتھ سنگین مذاق کیا جا رہا ہےجو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا ’’، ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران وزیر اعلیٰ سندھ اور بلوچستان نے ترقیاتی فنڈز کی عدم ریلیز پر تحفظات کا اظہار کیا، وفد نے کہا وفاق سندھ اور بلوچستان کے طے شدہ ترقیاتی فنڈز ریلیز نہیں کر رہا۔  مذاکراتی اجلاس میں پی پی رہنماؤں نے حکومتی وفد سے کہا کہ ہمارے ساتھ کمیٹی کمیٹی کھیلا جا رہا ہے ، حکومت واضح کرے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے ؟ ہمارے ساتھ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے ، لیکن پیپلز پا رٹی مذاق کے موڈ میں بالکل نہیں ،پی پی رہنماؤں نے حکومتی وفد سے پوچھا کیا کہ کیا حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر چل سکتی ہے ، وفد نے جواب دیاکہ وفاق یا پنجاب میں پیپلزپارٹی کے بغیر چلنا نا ممکن ہے ، اس پر پی پی رہنماؤں نے کہا کہ اگر حکومت چل نہیں سکتی تو پھر تنگ نہ کرے ، اگر پیپلزپارٹی حکومت کے ساتھ کھیلنے لگی تو حکومت کے لیے بہت مشکل ہو جائے گی پیپلزپارٹی وفد نے عالمی اداروں میں پوسٹنگ میں نظر انداز کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ وفاقی حکومت عالمی پوسٹنگز پر اعتماد میں نہیں لے رہی، پیپلز پارٹی کو عالمی پوسٹنگ میں ایڈجسٹ نہیں کیا جا رہا۔

یوتھیوں کو 9 مئی پر سزائیں: غیر ممالک دھمکیاں کیوں دینے لگے؟

وفد نے مزید کہا پنجاب میں بھی پیپلزپارٹی کو نظر انداز کرنے پر شدید تحفظات برقرار ہیں، پیپلز پارٹی نے پنجاب کے پاور شیئرنگ فارمولے پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا، اور کہا وفاقی حکومت تحریری معاہدے پر عمل درآمد نہیں کر رہی، مراد علی شاہ نے دریائے سندھ پر لنک کینال کی تعمیر پر بھی تحفظات حکومتی کمیٹی کے سامنے رکھے ، گورنر پنجاب نے صوبے میں درپیش انتظامی مسائل پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ پنجاب حکومت اور گورنر کے درمیان آئیڈیل ریلیشن شپ نہیں ۔اجلاس میں گورنر پنجاب نے صوبے میں تعیناتیوں پر اعتماد میں نہ لینے کا شکوہ بھی کیا، پیپلزپارٹی وفد نے کہا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو اب مذاکرات سمجھ سے بالاتر ہیں تاہم اجلاس میں حکومتی وفد نے تحفظات دور کرنے کی ایک بار پھر یقین دہانی کرادی ہے جبکہ پیپلزپارٹی رہنماؤں نے اپنی پارٹی قیادت سے نون لیگ کی بار بار کی وعدہ خلافیوں بارے راست حکمت عملی اپنانے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

Back to top button