سپریم کورٹ کے ججز کی آپسی جنگ عروج پر کیوں پہنچ گئی؟

حکومت کی جانب سے 26ویں ترمیم کے ذریعے ایک آئینی عدالت بنانے اور سپریم کورٹ کے عمرانڈو ججز کے ہاتھ باندھنے کے باوجود ججز کی آپسی جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اختیارات کی اس عدالتی جنگ میں عمرانڈو ججز کے امیر قافلہ جسٹس منصور علی شاہ ہیں جن کا چیف جسٹس آف بننے کا خواب بھی انکے عمرانڈو پن کی وجہ سے ادھورا رہ گیا تھا اور وہ اب تک اس بات کا غصہ نکالنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

رواں ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یحیی آفریدی کے رخصت پر جانے کے بعد بندر کے ہاتھ میں استرا آ گیا۔ سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج ہونے کے ناطے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کی خوب دھلائی کی اور ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر فارغ کر دیا۔ منصور شاہ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کرتے ہوئے پوچھا کہ ’کیا یہ ججز کمیٹی کا دائرہ اختیار ہے کہ سپریم کورٹ میں ایک چلتا ہوا کیس واپس لے سکے۔۔۔ یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بینچ میں لگا دیا۔‘

جسٹس منصور علی شاہ کے یہ ریمارکس ایک ایسے کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئے جس کا مرکزی نقطہ عدالت میں بینچوں کی تشکیل اور مقدمات ہیں۔ لیکن بظاہر معمول کی یہ سماعت سابق ججوں کے مطابق حالیہ سپریم کورٹ کے اندر اختیارات کا غیر معمولی تنازع ہے جس کا آغاز 26ویں آئینی ترمیم اور آئینی مقدمات سننے کے لیے بینچ کی تشکیل سے ہوا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فیصل عرب کے مطابق ’پاکستان کی سب سے بڑی عدالت، یعنی سپریم کورٹ میں اس وقت ججز کے درمیان جو تقسیم موجود ہے وہ کسی معاملے پر اختلاف رائے نہیں بلکہ اختیارات کی جنگ کا معاملہ ہے جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔‘

واضح رہے کہ 26ویں آئینی ترمیم اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے تحت تمام آئینی نوعیت کے مقدمات کی سماعت، خصوصا جن میں آئین کی تشریح مطلوب ہو، آئینی بینچ کی ذمہ داری قرار دیے گئے جس کے سربراہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس امین الدین خان نامزد کیے گئے تھے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد جب عدالت عظمیٰ میں سنیارٹی میں نمبر تین پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کا چناؤ نئے چیف جسٹس کے طور پر ہوا تو آئینی بینچ کے سربراہ کی نامزدگی نے عدلیہ میں تقسیم کی باتوں کو مزید ہوا دی اور حالیہ مقدمے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ تنازع ختم نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ کے ججز کے مابین موجودہ تنازع تب شروع ہوا جب ٹیکس قوانین سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کسٹم حکام نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جسے 13 جنوری کو جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی کی سماعت کے لیے مقرر کیا گیا۔ اس بینچ میں جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عرفان سعادت شامل تھے۔ تاہم ابتدائی سماعت میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ پہلے اس بات کا تعین کرنا ہوگا کہ یہ معامہ آئینی بینچ سنے گا یا دوسرا بینچ جس کے بعد سماعت ملتوی کر دی گئی۔

لیکن 20 جنوری کے نوٹیفیکیشن کے تحت یہ اپیل جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ سے ڈی لسٹ کر دی گئی اور اسے آئینی بینچ کو بھجوا دیا گیا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اعتراض اٹھایا کہ کیسے اپیل کی سماعت کے لیے نیا بینچ تشکیل دیا گیا اور کیسے یہ اپیل آئینی بینچ کو بھیج دی گئی۔ اس سوال کا سیدھا سا جواب تھا کہ چونکہ یہ ایک ائینی معاملہ تھا لہذا اسے سپریم کورٹ نے نہیں بلکہ آئینی عدالت نے سننا تھا۔

تاہم جسٹس منصور علی شاہ نے اپنا عمرانڈو پن دکھاتے ہوئے یہ ریمارکس دیے کہ ’پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لے گی تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہو جائے گی۔ جہاں محسوس ہو کہ فیصلہ حکومت کے خلاف ہو سکتا ہے تو وہقں بینچ سے کیس ہی واپس لے لیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس فیصل عرب اس مقدمے کو اس لیے غیر معمولی سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی رائے میں ’اب سپریم کورٹ کے کچھ ججز ملک میں رائج سسٹم پر سوال اٹھا رہے ہیں جبکہ ماضی میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’شاید پہلے والا نظام اعلی عدلیہ کے ججز کو پسند تھا جس میں ججز کی تعیناتی اور بینچز کی تشکیل میں اہم کردار اس وقت کے چیف جسٹس کا ہوتا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے ججز میں کسی آئینی معاملے پر اختلاف رائے ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے لیکن اب یہ معاملہ اختلاف رائے سے آگے نکل گیا ہے اور ججز کے گروپس ایک پوزیشن لیے ہوئے ہیں چاہے وہ پوزیشن غلط ہے یا صیح۔‘

آئینی بینچ اور سماعت کے اختیار کے حوالے سے جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد زور پکڑ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک آئینی عدالت ہے تو پھر الگ سے آئینی بینچ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی ایسا شخص یا ادارہ عدلیہ کے بینچز تشکیل نہیں دیتا جس نے کسی کے خلاف مقدمہ درج کروایا ہو یا اسکے خلاف کوئی درخواست آئی ہو۔‘

جسٹس ریٹائرڈ فیصل عرب کا کہنا تھا کہ ’کسی بھی حکومت وقت کے خلاف بڑی عدالتوں میں سب سے زیادہ مقدمات ہوتے ہیں تو ایسے حالات میں وہ کیسے بینچز کی تشکیل کا فیصلہ کر سکتی ہے کہ فلاں مقدمہ آئینی بینچ سنے گا اور فلاں مقدمہ دوسرا بینچ؟‘ انھوں نے کہا کہ ’جب سے سپریم کورٹ نے ججز کی تعیناتی سے لیکر بینچز کی تشکیل کا اختیار پارلیمنٹ کو دیا، اس وقت سے ججز مشکل میں آ گئے ہیں۔‘

افغان طالبان کو سیدھا کرنے کے لیے پاک امریکہ کارروائی کا امکان

تاہم سابق جج جسٹس وجیہہ الدین کی رائے کچھ مختلف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ کے موجودہ ججز میں اختلافات آئین یا قانون کی حکمرانی کے لیے نہیں بلکہ یہ معاملہ ذاتی مفاد کا ہے۔‘

جسٹس وجیہہ الدین کا کہنا تھا کہ ’سیاسی معاملات کو سننا جس میں ججز دلچسپی ظاہر کر رہے ہوں تو یہ کونفلکٹ آف انٹرسٹ ہے اور اس تاثر کو بھی تقویت ملتی ہے کہ ججز کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ دیں گے تو فلاں سیاسی جماعت خوش ہوگی اور وہ جج کے مفاد کا تحفظ کرے گی۔‘ انھوں نے کہا کہ بد قسمتی سے دنیا بھر میں پاکستان کا عدالتی نظام سب سے کم نمبروں میں سے ایک ہے اور اگر اعلی عدلیہ کے ججز میں اختلافات کا سلسلہ یوں جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب پورے عدالتی نظام کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔‘

Back to top button