فوج ، حکومت اور اپوزیشن تینوں امریکہ کی جانب کیوں دیکھتے ہیں ؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار ایاز امیر نے کہا ہے کہ دہائیوں پہلے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے بعد سے پاکستانی فیصلہ سازوں کو امداد لینے کی ایسی لت پڑی کہ اب اس سے چھٹکارا ناممکن ہو چکا ہے، لہذا آج دن تک پاکستانی حکمران کشکول لیے ملکوں ملکوں پھرتے نظر آتے ہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں ایاز امیر کہتے ہیں کہ انگریزوں کی زیر نگرانی ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو یہ تقریباً قدرتی امر تھا کہ پاکستانی قیادت سیدھی امریکی کیمپ میں جائے۔ جب امریکی کیمپ میں شمولیت کے بعد ہماری فوج کو اسلحہ ملنے لگا تو عسکری قیادت کا دماغ خراب ہونا شروع ہو گیا۔ شروع کے دنوں میں پاکستان کے لیے امریکی معاشی امداد کی کوئی خاص ضرورت نہ تھی لیکن امداد کی ایسی لَت پڑی کہ اُس سے چھٹکارا ناممکن ہو گیا۔ امریکہ سے پاکستان کا پہلا دفاعی معاہدہ ہوا تو پاکستان کو ٹینک اور لڑاکا طیارے ملنے لگے۔ لیکن ان کے آنے سے نقصان یہ ہوا کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے کچھ غلط نتائج اخذ کر لیے۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ تب تک ہماری سیاست صحیح بنیادوں پر استوار نہیں ہوئی تھی‘ آئین بھی نہیں بنا تھا لہٰذا سیاسی ادارے بھی ناپختہ تھے۔ چونکہ ٹینک اور لڑاکا جہاز اُس زمانے کے جدید ہتھیار تھے لہذا انہیں حاصل کرنے کے بعد یہ غلط فہمی ہو گئی کہ ہمیں ہندوستان پر سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے اسی غلط فہمی کے تحت 1965 میں بھارت سے پنگا لے لیا۔
موصوف نے بغیر کسی منصوبے کے مقبوضہ کشمیر میں چھیڑ خانی شروع کر دی۔ جنرل ایوب خان کو امید تھی کہ پاکستانی کمانڈوز کشمیر جائیں گے تو کشمیری عوام بھارتی حاکمیت کے خلاف بغاوت کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ لیکن بغاوت کیا ہونا تھی، الٹا پاکستانی کمانڈوز پکڑے اور مارے گئے۔ اس کے بعد جوابی حملے میں بھارتی فوج نے لاہور اور سیالکوٹ محاذ پر حملہ کر دیا۔ یوں 1965 کی جنگ کا قضیہ شروع ہوا۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ اس جنگ کی پاکستان کو کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے نتیجے میں ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ پاکستان اچھا بھلا چل رہا تھا لیکن اس ایک جنگ کی وجہ سے پٹڑی سے ایسا اُترا کہ آج تک سنبھل نہیں سکا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے بڑوں نے تاریخ مسخ کر کے لکھی اور ہم اب تک یہی راگ الاپتے ہیں کہ مکار دشمن نے رات کے اندھیرے میں ہم پر حملہ کیا اور ہماری بہادر افواج نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔ ہماری قوم بھی ایسی ہے کہ آدھی صدی تک یہی جھوٹا افسانہ سناتی رہی۔
کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ اب جبکہ نئے طوفان اُٹھ رہے ہیں اور پرانی حقیقتیں بدل چکی ہیں تو پاکستان کے عوام اُن مسخ شدہ جھوٹے افسانوں کے سحر سے نکل رہے ہیں۔ روزِ اول سے نعروں سے متاثر ہونے والی پاکستانی قوم کا مسئلہ ہی یہ رہا کہ اس نے تعلیم و ترقی پر تو کوئی زور نہیں دیا‘ لیکن ہندوستان دشمنی کے نعرے لگاتے ہوئے یہ چورن بیچتے رہے کہ ہماری بڑی سٹریٹجک لوکیشن ہے جس کی وجہ سے لازم ہے کہ دنیا اپنے کام چھوڑ کر ہم پر فدا ہوتی رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مراکز تو تعلیم و ترقی کے بننے چاہیئے تھے لیکن جو ہم نے بنائے وہ سکیورٹی کے مراکز تھے جن کے نتیجے میں پاکستان ایک فلاحی ریاست کی بجائے ایک سکیورٹی سٹیٹ بن گیا۔ سیکیورٹی سٹیٹ کا ایک تگڑا دشمن بھی ہونا چاہیے اور ظاہر ہے ہمارے تناظر میں دشمن کی ضرورت ہندوستان نے پوری کی۔
افغانستان سے غیر ملکی اسلحہ اب بھی پاکستان کیسے سمگلنگ ہو رہا ہے ؟
ایاز امیر کہتے ہیں کہ اگر ماضی میں امریکی ٹینکوں اور جہازوں نے پاکستان کو غلط فہمی میں مبتلا کیا تو 80ء کی دہائی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ نام نہاد افغان جہاد نے پوری کردی۔ جنرل ضیا کے دور میں پاکستان میں ڈالرز‘ ریال اور اسلحے کی ایسی فراوانی ہوئی کہ ہمارا دماغ بالکل ہی خراب ہو گیا۔ دراصل امریکیوں کو تو اپنا مفاد عزیز تھا اور وہ ہمیں استعمال کر رہے تھے لیکن ہم نے اسے دوست سمجھ لیا۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو امریکی کیمپ میں جانا کوئی حادثہ نہیں تھا۔ دراصل تحریکِ پاکستان کی مرکزی قیادت کی سوچ ہی رجعت پسندانہ‘ جاگیر دارانہ اور روس مخالف تھی۔ لہٰذا جب انگریز چلے گئے اور ہندوستان کا بٹوارا ہوا تو یہ ایک قدرتی امر تھا کہ پاکستانی قیادت سیدھی امریکی کیمپ میں جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ پاکستان کو مسلسل استعمال کرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر طالبان کے چنگل میں چھوڑ کر خود افغانستان سے نکل چکا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہو، حکومت ہو یا اپوزیشن، تینوں اپنی کامیابی کے لیے امریکہ کی جانب ہی دیکھ رہے ہیں۔۔۔