عمران خان کو اپنی 18 ماہ کی قید اتنا بڑا ظلم کیوں لگتی ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار روف کلاسرا نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قید عمران خان کو اپنی 18 ماہ کی مختصر سی قید بھی ظلم عظیم لگتی ہے، لیکن بھٹو کی پھانسی‘ بینظیر بھٹو کا قتل، اور آصف زرداری اور نواز شریف کی قید اور قربانیاں انہیں بہت حقیر لگتی ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے بانی کا انصاف دیکھ کر مجھے وہ قرآنی آیت یاد آتی ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں روؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ ہر سیاستدان میں ایک خوبی کا ہونا بڑا ضروری ہے۔ دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنا۔ آپ میں یہ خوبی نہیں ہے تو آپ سیاستدان نہیں اور نہ لوگوں کو اپنے پیچھے لگا سکتے ہیں۔ عمران سے پہلے سیاستدان بھی دھیرے دھیرے یہ کام سیکھ گئے تھے۔ عمران کو یہ آرٹ سیکھنے میں 20 برس لگے کیونکہ اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔ شروع میں وہ شرمیلے تھے اور سیاستدانوں والے جھوٹ بولنا یا سنہرے خواب دکھانا آسان نہ تھا، لیکن پھر اسی رنگ میں رنگے گئے۔
انسانی مزاج ہے کہ جب مشکل اور تکلیف سے گزر رہا ہو تو اسے وہ وقت سب سے زیادہ اذیت ناک لگتا ہے۔ عمران خان نے جیل سے جو ٹوئٹس کیے ہیں ان سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انسان پر ذاتی تجربے اور ذاتی تکالیف کا اثر دوسروں کی تکلیف سے زیادہ ہوتا ہے۔ اگرچہ جب انسان خود مشکل سے گزرتا ہے تو اسے دوسروں کی مشکلات کا بہتر اندازہ ہوتا ہے اور وہ ان کے دکھ درد اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ لیکن مجھے عمران خان کے وہ ٹوئٹس پڑھ کر حیرانی ہوئی جب انہوں نے جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے مارشل لاء کو آج کے حالات سے بہتر بتایا۔ ان کے ٹوئٹس سے لگ رہا تھا کہ جنرل ضیا اور مشرف کا دور آج سے بہتر تھا کیونکہ اب عمران خان اور ان کی پارٹی مشکلات کا شکار ہے۔ عمران خان کے دونوں سابقہ فوجی حکمرانوں کو بہتر سمجھنے کی چند وجوہات ہیں۔ جنرل ضیا کے دس سالہ دور میں عمران خان کرکٹ کھیل رہے تھے اور عروج پر تھے۔ انہیں نہ پتہ تھا نہ پروا کہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ جنرل ضیا ان کی قدر کرتے تھے۔ وہ کرکٹ کو کھیل کے طور پر پورے ملک کے لیے پسند کرتے تھے تاکہ مارشل لاء کی گھٹن لوگوں کو محسوس نہ ہو۔ لوگ کرکٹ اور پی ٹی وی پر چلنے والے زمینداروں اور جاگیرداروں کے خلاف ڈرامے دیکھنے میں مصروف رہے۔ کرکٹ کا کھیل ملک کو نارمل شکل دیتا تھا اور لوگ بھول جاتے تھے کہ پاکستان میں کس قسم کی سفاکی اور بربریت سے کام لیا جا رہا ہے۔ عمران خان اپنے عروج پر تھے۔ یہ جنرل ضیا ہی تھے جنہوں نے عمران خان سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ تبدیل کرایا ‘ جس پر پوری قوم بڑی خوش ہوئی۔ وجہ وہی تھی کہ جنرل ضیا اپنے دور میں کرکٹ کے ذریعے قوم کو خوش رکھنا چاہتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک مشہور اور ہر دل عزیز کرکٹر ان کے دور میں ریٹائر ہو جائے اور لوگوں کا دھیان ان کے جبرکی طرف نہ ہو جائے۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ سوال یہ ہے کہ اب تو خان صاحب بڑے ہو گئے ہیں لیکن انہیں اب بھی جنرل ضیا کا دور کیوں اچھا لگتا ہے؟ کیا واقعی عمران کو علم نہیں ہے کہ ضیا دور میں ان کی طرح کے ایک وزیر اعظم کو برطرف کرکے پھانسی لگا دی گئی تھی۔ عمران خان کی طرح بھٹو بھی دو سال تک جیل میں رہے۔ ان کا بھی ٹرائل کیا گیا جیسا آج کل عمران کا ہو رہا ہے۔ اس دور میں بھی سینکڑوں پی پی پی ورکرز‘ صحافی اور سول سوسائٹی کے دانشور جیلوں میں ڈالے گئے بلکہ شاہی قلعہ میں بدترین تشدد کیا گیا اور وہ حواس کھو بیٹھے۔ کئی خاندان تباہ ہوئے۔ بھٹو کی پھانسی پر کئی نوجوان ورکرز نے خود کو احتجاجاً آگ لگا لی تھی۔ بھٹو کا پورا خاندان اس عذاب سے گزرا۔ مرتضیٰ اور شاہ نواز پاکستان چھوڑ کر کابل چلے گئے‘ مسلح مزاحمت کا راستہ چنا اور بعد میں مارے گئے۔ سینکڑوں ورکرز کی جوانیاں شاہی قلعہ میں ضائع ہو گئیں۔ کئی سیاستدانوں اور دانشوروں نے پاکستان چھوڑ کر بیرونِ ملک سیاسی پناہ لی۔ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی چڑھا دیا گیا لیکن خان صاحب کو اب بھی وہ دور نسبتاً بہتر لگتا ہے۔
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ اسی طرح عمران خان کو جنرل مشرف کا دور بھی بہت بھلا لگتا ہے اور وہ اسے ایک لبرل دور کہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ وہ بھی ایک بہترین فوجی حکمران تھے۔ لیکن خان صاحب بھول گے کہ جنرل مشرف کے دور میں انہی کی طرح کے ایک وزیر اعظم کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا گیا۔ اس کی حکومت ختم کی گئی‘ دہشت گردی کی عدالت سے چودہ سال سزا دے کر دس سال کے لیے سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ مشرف دور میں سینکڑوں بیوروکریٹس اور سیاستدانوں کو سردیوں کے موسم میں راتوں رات گھروں سے اٹھا کر تھانوں میں ٹھنڈے فرش پر ڈال دیا گیا۔ اس دور میں کون کون نیب میں گرفتار نہیں تھا۔ نوے نوے دن کے لیے تو اسیران کو عدالت بھی پیش نہیں کیا جاتا تھا کیونکہ یہ وہ کالا قانون تھا جو جنرل مشرف نے خود بنایا تھا۔ پھر اسی دور میں یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی جیسے سیاستدان برسوں جیل میں قید رہے۔ جاوید ہاشمی نے کارگل بارے ایک خط پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا میں پڑھ دیا تھا جس پر انہیں برسوں کی سزا سنا دی گئی۔ ان پر جیل میں تشدد کیا گیا۔ درجنوں سیاستدانوں کی گن پوائنٹ پر وفاداریاں تبدیل کرائی جاتی رہیں۔ جو لوگ پارٹیاں چھوڑ دیتے انہیں نیب کلین چٹ دے کر بری کر دیتا اور باقی لوگوں کو سزائیں سنا دی جاتی تھیں۔ کرپٹ لوگ کلین ہو کر وزیر بن رہے تھے۔
کیا حکومت اور PTI کا مذاکراتی عمل اپنے انجام کو پہنچ چکا ؟3
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ مزے کی بات یہ ہے اس وقت عمران ڈٹ کر مشرف کے ساتھ کندھا ملائے کھڑے تھے۔ وہ ان کے صدارتی ریفرنڈم میں نہ صرف خود ووٹ ڈال رہے تھے بلکہ وردی کے ساتھ صدر کا ووٹ ڈلوانے کے لیے مہم چلائے ہوئے تھے اور جنرل مشرف ان کے کینسر ہسپتال کو عطیہ دلوا رہے تھے۔ اسی دور میں ایک اور وزیراعظم بینظیر بھٹو کو سرعام قتل کر دیا گیا۔ لیخن آج عمران خود تکلیف میں ہیں تو سمجھتے ہیں کہ مشرف اور ضیا تو بہتر تھے کیونکہ اُس دور میں نہ وہ بھٹو کی طرح پھانسی لگے‘ نہ نواز شریف کی طرح دہشت گرد ی کی عدالت سے چودہ سال سزا سنی نہ بینظیر بھٹو والا انجام ہوا لہٰذا خان کو لگتا ہے اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا لیکن آج جو کچھ ہو رہا ہے‘ وہ سب غلط ہے۔ آج کی فوج بری ہے کیونکہ وہ خان کے خلاف کارروائی کر رہی ہے لیکن جب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کہ ادوار میں فوج ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف زرداری، نواز شریف، یوسف رضا گیلانی اور جاوید ہاشمی کے خلاف کاروائیاں کر رہی تھی تو تب فوج اچھی کیسے تھی؟
رووف کلاسرا کہتے ہیں کہ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان آئین شکنی کرنے والے فوجی ڈکٹیٹرز مشرف اور ضیا کو کیسے کلین چٹ دے سکتے ہیں۔ یہ وہ فوجی آمر ہیں جن کے دور اقتدار میں دو وزیر اعظم قتل کر دیے گے کیونکہ یہ دونوں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے ذاتی دشمن بن چکے تھے۔ باپ اور بیٹی دونوں منتخب وزیراعظم تھے لیکن ان دونوں کو دو ڈکٹیٹرز کے ادوار میں راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا، اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے لیکن افسوس کہ عمران خان کو اپنی 18 ماہ کی قید زیادہ بڑا ظلم لگتی ہے۔ شاید اسکی وجہ انسانی نفسیات ہے کیونکہ انسان اپنا دکھ سب سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔