پاکستان آرمی نے نئی راکٹ فورس کیوں تشکیل دی ہے؟

پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ سے سبق سیکھتے ہوئے فوجی قیادت نے ایک راکٹ فورس تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق حالیہ جنگ نے فوجی قیادت کو یہ ادراک دیا ہے کہ روایتی جنگ کے دوران طویل فاصلے تک مار کرنے والے راکٹس اور گائیڈڈ میزائلز کے مؤثر استعمال کے لیے ایک علیحدہ کمانڈ تشکیل دینے کی ضرورت ہے تاکہ جنگی حالات میں فوری فیصلے کیے جا سکیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق انڈیا پاکستان جنگ میں فتح میزائل کے ’موثر اور مہلک‘ حملوں کے بعد ضروری تھا کہ اس عسکری صلاحیت کو فروغ دینے کے لیے فوج کے اندر ایک علیحدہ کمانڈ تشکیل دی جائے۔اس وقت فوج میں عسکری نوعیت کے دو شعبے ہیں، ایک روائیتی توپ خانہ اور دوسرا سٹریٹیجک کمانڈ فورس ہے جس میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، نیوکلئیر وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل شامل ہیں۔
سٹرٹیجک کمانڈ فورس بھی پاکستانی فوج کا حصہ ہے لیکن سٹریٹیجک ہتھیار کب اور کہاں استعمال کرنے ہیں اس کا فیصلہ نیشل کمانڈ اٹھارتی کرتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی تشکیل کردہ آرمی راکٹ فورس کمانڈ آرٹیلری اور سٹرٹیجک ہتھیاروں والی کمانڈ سے مختلف کام کرے گی۔ یہ کمانڈ کسی بھی جنگ کے دوران درمیانی رینج کے میزائلوں کو استعمال کرتے ہوئے اور نیوکلئیر جنگ شروع کرنے کا ثاثر دیے بغیر، دشمن کے اہداف کو نشانہ بنائے گی۔ خیال رہے پاکستان کے میزائل سسٹمز میں روایتی اور غیر روایتی دونوں اقسام کے میزائیلز شامل ہیں۔ غیر روایتی نظام کا تعلق ایٹمی صلاحیت سے ہے، جو سٹریٹیجک فورس کمانڈ کے تحت آتے ہیں اور ان کا کنٹرول سٹریٹیجک پلانز ڈویژن کے پاس ہے۔ جبکہ نئی تشکیل کردہ راکٹ فورس کمانڈ صرف روایتی وارفیئر یعنی بغیر ایٹمی ہتھیار کے میزائلز کی کمان سنبھالے گی۔
سیکورٹی ذرائع کے مطابق اس کمانڈ کے قیام کا مطلب یہ نہیں کہ نئی فورسز تشکیل دی جا رہی ہیں بلکہ یہ ایک نیا ہیڈ کوارٹر اور کمانڈ سسٹم ہے، جو پہلے سے موجود طویل فاصلے کے توپ خانے کو منظم، مربوط اور زیادہ موثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے قائم کیا جا رہا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ حالیہ پاک بھارت جنگ سے سبق سیکھنے کے بعد پاکستان آرمی آئندہ روایتی جنگوں میں راکٹ فورسز کا زیادہ اور بہتر استعمال کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ فتح میزائل جیسے سسٹمز اب آزمائشی یا علامتی استعمال کے لیے نہیں بلکہ باقاعدہ جنگی حکمت عملی کا مستقل حصہ ہوں گے۔
دفاعی تجزیہ کار محمد علی کے مطابق ’سٹرٹیجک ہتھیار طویل فاصلے تک جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ روایتی توپ خانہ ایک محدود علاقے میں ہونے والے جنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ پاک فوج کا سٹرکچر روایتی طور پر کورز پر مشتمل ہے جبکہ اس وقت دو کمانڈز بھی موجود ہیں۔ ہر کور ایک خودمختار جنگی یونٹ ہوتا ہے، جس کی قیادت ایک لیفٹیننٹ جنرل کرتا ہے۔ پاک فوج میں اس وقت 9 فعال کورز اور دو کمانڈز ہیں، جن میں ہر ایک کی الگ ذمہ داریاں اور جغرافیائی دائرہ کار ہے۔ ایئر ڈیفنس کمانڈ پاک فوج کی فضائی دفاعی صلاحیت، یعنی دشمن کے طیاروں، ڈرونز اور میزائلز کے خلاف تحفظ کی ذمہ دار ہے۔
آرٹلری ڈویژنز کا کردار پاکستانی فوج کے توپ خانے سے منسلک ہے۔ اس وقت پاکستان فوج کے پاس دو فعال آرٹلری ڈویژنز ہیں: گوجرانوالہ اور پنوں عاقل۔ ان ڈویژنز میں کم، درمیانے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے توپ خانے شامل ہیں۔ ماضی میں فتح میزائل جیسے سسٹمز، جن کی رینج 150 سے 400 کلومیٹر تک ہے، آرٹلری ڈویژنز کے تحت استعمال کیے جاتے تھے۔ سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی راکٹ کمانڈ کے قیام کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ان میزائلوں کو مرکزی، مربوط اور تیز فیصلوں کے تحت استعمال کیا جا سکے گا۔
پارٹی قیادت کے بعد کارکنان نے بھی عمران خان کو فارغ کر دیا
ایک سابق فوجی افسر نے بتایا کہ یہ فیصلہ پاکستانی فوج کی آرٹلری ڈویژنز کی افادیت کو بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے، خاص طور پر ان راکٹس اور میزائلوں کے استعمال کو منظم کرنے کے لیے جو روایتی جنگ میں استعمال ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آرمی راکٹ فورس کمانڈ کی تشکیل سے قبل ایشیا کے کئی ممالک نے راکٹ فورسز بنائی ہیں۔ انڈیا، چین اور روس میں راکٹ فورسز پہلے سے موجود ہیں اور ہر ملک کی فورسز کے مختلف سٹرکچرز ہیں انڈیا نے اپنی راکٹ فورس چند سال قبل تشکیل دی تھی جس کا مقصد جنگ میں ائیر فورس کی براہ راست شمولیت کے بغیر، کم خرچ، سرجیکل سٹرائیک کرنے کی صلاحیتیں کو فروغ دینا ہے۔ انڈیا نے اسی تناظر میں 2023 میں زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل بنائے جن کی رینج 150 سے 500 کلومیٹر تک ہے۔ انڈیا نے حالیہ پاک بھارت جنگ میں اسی راکٹ فورس کے تحت پاکستان کے مختلف شہروں میں میزائل حملے کیے تھے جن میں مریدکے اور بہاولپور بھی شامل تھے۔
