پاکستانی ریاست نے عوام کی سچ تک رسائی ناممکن کیوں بنا ڈالی ؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حماد غزنوی نے پاکستان میں مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر عائد کردہ ریاستی سینسرشپ کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سچ پر سنسر شپ کا پہرہ بٹھا دیا جائے تو جھوٹ کیلئے وسیع و عریض میدان کھلا رہ جاتا ہے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سنسر شپ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے، ایسے میں خبر کی تلاش میں لوگ غیرملکی ذرائع سے خبریں حاصل کرنے لگتے ہیں، یعنی بیانیے کی جنگ میں سنسر شپ ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں حماد غزنوی کہتے ہیں کہ ایک پاکستانی انگریزی روزنامے کی خبر کا عکس سوشل میڈیا پر نظر سے گزرا جس میں ایک ایسی ایپ کا تذکرہ تھا جو کرپٹو کرنسی سے پیسے کمانے کی مشین ہے، دنوں میں کروڑ پتی بننے کا نادر اور آسان ترین نسخہ، چاہے آپ کو اس کاروبار کا کچھ علم ہے یا نہیں، ایپ کی مصنوعی ذہانت خود طے کرتی ہے کہ کس کرنسی میں کتنے پیسے کی سرمایہ کاری کرنا ہے، اور ایپ چند گھنٹوں میں نوٹ اُگلنا شروع کر دیتی ہے۔ اس خبر میں یہ تمام معلومات پاکستان کا ایک سابق سفیر فراہم کر رہا ہے، یعنی ایک معتبر شخص تصدیق کر رہا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ سوشل میڈیا پر ایک سپانسرڈ اشتہار تھا۔ تحقیق کی غرض سے مین نے اس دن کا الیکٹرونک اخبار دیکھا گیا تو اس میں یہ خبر موجود نہیں تھی، یعنی تصویر کا عکس جعلی تھا۔ سوشل میڈیا کے اشتہار میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ اخبار نے یہ خبر اپنی ویب سائٹ سے ریاستی بینک کے دبائو پر ہٹا دی ہے، یعنی اگر کوئی تصدیق کیلئے اخبار کے اس شمارے تک پہنچ بھی جائے تو ابہام باقی رہے۔

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ اتفاق ہے کہ آج ہی میں نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کلپ دیکھا جس میں بہ ظاہر جیو ٹی وی چل رہا ہے، ٹی وی کے ایک معروف نیوز کاسٹر کسی حکیم صاحب کے فولادی کُشتے اور جادوئی محلول کا ذکر کر رہے ہیں جو آپ کو رُستمِ خواب گاہ بنا دے گا، پھر اس خبر میں ان لوگوں کے انٹرویو بھی شامل ہیں جو یہ ادویات استعمال کر کے ’’عزت دار‘‘ زندگی گزار رہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے بنایا گیا یہ ویڈیو کلپ بالکل حقیقی نظر آتا ہے، اور کسی بھی عامی کو بہ آسانی دھوکا دے سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص جیو کی صحافتی اقدار اور حکیموں کے ضمن میں پیمرا کے قوانین سے آگاہی نہیں رکھتا تو اس ویڈیو میں بہ ظاہر کوئی مشکوک عنصر نہیں ہے، جیو ٹی وی کے گرافکس، ٹی وی کا معروف نیوز کاسٹر اور وہی شناساآواز و انداز۔ ہمارے ایک دوست خواتین کے کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں، پچھلے ہفتے انہوں نے اپنی عید کی کلیکشن کا فیشن شوٹ کروایا، تصویریں آئیں تو انہیں ماڈل کے چہرے کے تاثرات پسند نہیں آئے، انہوں نے مصنوعی ذہانت کی ایک سادہ سی ایپ کے ذریعے ماڈل کا چہرہ ایک حسین تر چہرے سے بدل دیا، وہ شوٹ چھپ چکا ہے، وہ کپڑے دھڑا دھڑ بک رہے ہیں۔

حماد کہتے ہیں کہ ہم لوگ بڑے دنوں سے سن رہے تھے کہ اب دنیا ’’پوسٹ ٹرتھ‘‘  post truth دور میں داخل ہو چکہ ہے، لیکن اب یہ حقیقت ہمارے سامنے مجسم ہو چکی ہے، ہمارے چاروں طرف اس کی مثالیں بکھری ہوئی ہیں جو کسی نہ کسی صورت میں ہم پر براہِ راست اثر انداز ہو رہی ہیں ۔ جھوٹ کے پائوں ہیں یا نہیں، اس کا سر آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ اس دھند کو چِیرکر اس پار دیکھنے کا کوئی آسان طریقہ نظر نہیں آ رہا، بلکہ فی الحال تو دھند کی یلغار میں شدت آتی چلی جا رہی ہے۔

ریاست و سیاست کے میدان میں یہ سچ جھوٹ کا کھیل اپنے پورے شباب پر ہے، کچھ طے نہیں ہو پاتا ’’دھوکا نظر کا ہے کہ نظارہ فریب ہے۔‘‘ اگر کسی کے جھوٹ کا پیراہن خوب صورت ہے تو وہ سچا قرار پاتا ہے۔جعفر ایکسپریس کے اغوا کے حوالے سے اس بحث کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

حال ہی میں جب جعفر ایکسپریس اغوا ہوئی تو ریاست اور حکومت نے اس کی تفصیلات بتانا شروع کیں، اور دہشت گردوں نے اپنا ’’سچ‘‘ پھیلانا شروع کیا، مبینہ طور پر سیٹلائٹ فونز سے بھیجی ہوئی تصویریں سوشل میڈیا پر نظر آنا شروع ہوئیں، ریاست نے ایک قصہ سنایا، دہشت گردوں نے دوسرا، آج اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی اگر کسی ذہین شخص سے سوال کیا جائے کہ اُس روز ٹرین کے سانحے میں دراصل کیا ہوا تھا، کتنے لوگ مارے گئے تھے اور کس طرح مارے گئے تھے، تو شاید کوئی بھی تیقن سے کچھ نہ بتا سکے، جس شخص کی ہم دردی جس فریق سے ہو گی وہ اس کا ’’سچ‘‘ مان لے گا، جن صحافیوں کی حکومتی تمغوں میں دل چسپی ہے وہ حکومتی سچ کی ترویج کرتے ہیں، جن یوٹیوبرز کو ڈالرز سے لگائو ہے وہ دہشت گردوں کو سچا اور با حق قرار دیتے ہیں۔ ہمارے میڈیا کو جو بتایا گیا وہ من و عن نشر کر دیا گیا، اور ہندوستان کے میڈیا کو جو ہدایات دی گئی ہوں گی وہ اس کی روشنی میں رقص کناں ہو گئے۔

حکومتی ردعمل: بلوچ مظاہرین کی رہائی کا اقوم متحدہ کا مطالبہ مسترد

حماد غزنوی کہتے ہیں کہ بیانیے کی جنگ میں سچ جھوٹ غیر متعلقہ عناصر ہوا کرتے ہیں۔ نہ کسی صحافی نے ٹرین اغواء کے وقوعے پر جانے کا قصد کیا، نہ کسی نے لیجانے کی دعوت دی، حتیٰ کہ چابی سے چلنے والے صحافیوں کو بھی کسی ہیلی کاپٹر میں بھر کر وقوعے پر لے جانے کی زحمت نہیں کی گئی۔ اگر سچ پر سنسر شپ کا پہرہ بٹھا دیا جائے تو جھوٹ کیلئے وسیع و عریض میدان کھلا رہ جاتا ہے۔ ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے سنسر شپ سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا ہے، لوگ ایسے حالات میں غیرملکی ذرائع سے خبریں حاصل کرنے لگتے ہیں، یعنی بیانیہ کی جنگ میں سنسر شپ ہتھیار ڈالنے کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ آج آپ کسی سے پوچھیں بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، آپ کو تعصبات سننے کو ملیں گے، جن کا حقائق سے واجبی سا تعلق ہو گا، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ ایک مقبول بلوچی راہ نما ہے یا بی ایل اے کے سیاسی دستے کی نمائندہ؟ لٹمس ٹیسٹ  litmus test کے طور پر اپنے آس پاس کے لوگوں سے یہ سوال کر کے دیکھیے۔ بلا شبہ، انسانی تاریخ کے کسی بھی عہد میں سچ تک رسائی اتنی دشوار نہیں رہی جتنی کہ موجودہ دور میں ہو چکی ہے۔

Back to top button