تحریک انصاف میں نئی اور پرانی قیادت کی آپسی جنگ تیز کیوں ہو گئی ؟

جب سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے عمران خان کی جیل سے رہائی کو اپنی پہلی ترجیح بنایا ہے، پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور پرانے اور نئے رہنما ایک دوسرے کے طرز سیاست پر سخت ترین تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ صورتحال اتنی بگڑ چکی ہے کہ پی ٹی آئی کے پرانے اور نئے رہنما آپس میں لفظی طور پر دست و گریبان ہیں، پارٹی کے پرانے بزرگ سیاستدانوں اور نئے فصلی بٹیروں کی جنگ عروج پر پہنچ چکی ہے۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار شکیل انجم روزنامہ جنگ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جھوٹ کی ابتدا ایک خود رو پودے کی طرح تب ہوئی تھی جب انسانی معاشرے کا ارتقا عمل میں آیا۔ جھوٹ بھی تب ہی دیگر برائیوں کے ساتھ زمین پر اترا اور انتہائی زہریلی وباؤں اور خطرناک اشکال میں انسان کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ جھوٹ شیطان کے پیروکاروں کے لئے ’’عزت و وقار‘‘ کا باعث بنا اور پھر وہ وقت بھی آ گیا جب یہ ہماری قومی سیاست میں U-Turns کی صورت میں جھلکنے لگا۔ اڈیالہ جیل میں بند عمران خان نے جھوٹ کو ’’سیاسی شعور‘‘ کے طور اجاگر کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ یو ٹرن تو عظیم لیڈروں کی نشانی ہوتا ہے، چنانچہ سیاست میں جھوٹ کی غلاظت شامل ہونے کے بعد اب سیاست ہر گز عبادت نہیں رہی بلکہ ایک گندی گالی بن چکی ہے۔

12 برس میں PTI خیبر پختون خواہ کی حالت بہتر کیوں نہیں بنا پائی ؟

شکیل انجم کہتے ہیں کہ ویسے تو ملک کی بیشتر سیاسی جماعتیں جھوٹ کی بنیادوں پر کھڑی ہیں لیکن ایک چہرے پر کئی چہرے سجائے رکھنے اور جھوٹ کے گرد طواف کرنے والے’’صادق و امین‘‘ کے نام پر کفر کرنے والوں کی جماعت کا خمیر ہی جھوٹ سے اٹھا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انصافی قیادت کی اصلیت سامنے آنے پر اب پارٹی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ جب سے تحریک انصاف کی سیاسی ترجیحات صرف پارٹی قائد عمران خان کی رہائی یا قیدی کے طور پر زیادہ سے زیادہ رعایتیں اور سہولتیں حاصل کرنے پر مرکوز ہوئی ہیں، پارٹی رہنماؤں کے باہمی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں۔لیکن پی ٹی آئی کا کوئی رہنما غدر کی اس صورتحال کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔ اگر کوئی صحافی اس جنگ و جدل کی نشاندہی کر دے تو یوتھیے اپنے سوشل میڈیا بریگیڈ کے ذریعے اسکے خلاف گند بکنا شروع کر دیتے ہیں۔

گزشتہ دنوں جنگ گروپ کے ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی نے پی-ٹی-آئی کے سینئر سیاستدان سے گفتگو کی بنیاد پر پارٹی کے اندر انتشار کا اشارہ دیا تو جیسے کسی نے ان کی دم پر پاؤں رکھ دیا ہو، یہ جانتے ہوئے بھی کہ انصار عباسی کا شمار ان چند صحافیوں میں ہوتا ہے جو من گھڑت خبر پر یقین نہیں رکھتے، یوتھیوں نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر گندی مہم شروع کر دی۔ دراصل پی ٹی آئی کے ’’ڈرم بیٹرز‘‘ عوام کے ذہنوں میں اٹھنے والے ان سوالات کو سننے اور ان کا منطقی جواب دینے کی جرات نہیں رکھتے کہ کیا تحریک انصاف یا عمران خان اسرائیل اور یہودیوں کے علاوہ دہشت گرد تنظیموں اور بھارتی ایجنڈے کے تحت علیحدگی پسند تنظیموں کیلئے نرم گوشہ نہیں رکھتے؟ اگر یہ تاثر غلط ہے تو کیوں عمران خان اور ان کی پارٹی اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلے الفاظ میں مذمت نہیں کی؟ کیوں جعفر ایکسپریس پر بلوچ لبریشن آرمی کے حملے کے نتیجے میں درجنوں مسافروں کی اموات پر پارٹی نے مذمتی بیان جاری نہیں کیا؟ اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں کس سازش کے تحت 42 ہزار طالبان دہشت گردوں کو افغانستان سے واپس لا کر پاکستان میں آباد کیا جو ملکی سلامتی کیلئے ہمیشہ خطرے کی تلوار بن کے سر پر لٹکتی رہتی ہے؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب یہی دہشتگرد ملک کے طول و عرض میں دہشتگردی پھیلا  رہے ہیں۔۔۔۔

Back to top button