امریکہ اس بار پاکستان اور انڈیا کے مابین بیچ بچاؤ کیوں نہیں کروا رہا؟

پاکستان اور بھارت کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف جاری حملوں کے باوجود ماضی کے برعکس اس بار امریکہ دونوں نیوکلیئر ہمسایوں کے مابین ثالث کا کردار ادا کرنے سے پرہیز کرتا نظر آتا ہے۔ خیال رہے کہ ماضی میں جب بھی انڈیا اور پاکستان کے مابین معاملات جنگ تک پہنچے تو امریکہ نے ہی بیچ بچاؤ کروایا۔
10 مئی 2025 کی صبح پاکستان کی جانب سے انڈیا کیخلاف جوابی فضائی کارروائی کے دوران رافیل طیارے گرانے کے فورا بعد امریکی سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے رابطہ کرتے ہوئے زور دیا تھا کہ دونوں فریقین کشیدگی کم کرنے کے طریقے ڈھونڈیں۔ انھوں نے تنازعے کی شدت کم کرنے کے لیے بات چیت کی تجویز دیتے ہوئے امریکی ثالثی کی پیشکش بھی کی۔ تاہم اس کے اگلے ہی روز امریکی نائب صدر نے کہا تھا کہ امریکہ کو انڈیا پاکستان تنازعے میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا کہنا تھا کہ امریکا ایسی کسی جنگ میں مداخلت نہیں کرے گا جس سے اس کا کوئی سروکار نہیں۔
امریکی نائب صدر کا کہنا تھا کہ انڈیا نے حملہ کیا، اور پاکستان نے جواب دیا۔ اب دونوں ممالک کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے، پاکستان اور انڈیا کی جنگ ایٹمی جنگ نہیں بننی چاہیے، اگر ایسا ہوا تو بہت نقصان ہو گا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’امریکہ انڈیا کو ہتھیار ڈالنے کے لیے نہیں کہہ سکتا۔ ہم پاکستانیوں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔’ اس سے پہلے امریکی صدر ٹرمپ نے بھی انڈیا پاکستان تنازع میں پڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اور بھارت خود سمجھدار ہیں اور اپنے تنازعے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ 7 مئی کو پاکستان اور آزاد کشمیر پر انڈیا کے میزائل حملوں سے 33 شہریوں کی شہادت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ 10 مئی کی صبح انڈیا نے فضا سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں سے راولپنڈی کی نور خان ایئر بیس، شورکوٹ ایئر بیس اور مرید ایئر بیس پر میزائیل حملے کر ڈالے۔ پاکستانی فوجی ترجمان نے ان حملوں کے بعد بتایا کہ ان کا مقصد پاکستان کے فضائی اثاثوں کو تباہ کرنا تھا لیکن ہمارے تمام اثاثے محفوظ رہے۔
رات گئے ہونے والی اس کارروائی کے بعد پاکستانی فوج کی جانب سے جوابی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ پاکستان کے جوابی آپریشن کو ’بنیان مرصوص‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جوابی کارروائی کے دوران جدید ترین میزائل استعمال کرتے ہوئے درجنوں اہم ترین بھارتی فوجی تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا۔ ان میں خصوصا وہ تنصیبات شامل تھیں جہاں سے چند روز پہلے پاکستان کہ چار بڑے شہروں میں میزائل داغے گئے تھے۔ تازہ ترین میزائل حملوں کے بعد امریکہ نے دوبارہ تشویش کا اظہار تو کیا ہے لیکن دونوں ہمسایوں کے مابین بیچ بچاؤ کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش شروع نہیں کی۔
جنوبی ایشیا میں ابھرتے ہوئے تازہ بحران پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاید ماضی کے برعکس امریکہ س بار انڈیا اور پاکستان کی کشیدگی کم کروانے کے لیے زیادہ آگے نہ آئے۔ جنوبی ایشیا کے امور پر گہری نظر رکھنے والے امریکی تجزیہ کار مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ امریکہ 1999 اور 2019 میں پاکستان اور انڈیا کے دوران ثالثی کی کوششوں کے دوران کافی متحرک رہا تھا لیکن شاید اس بار امریکہ اس معاملے میں زیادہ سرگرم نظر نہ آئے۔
نائب امریکی صدر جے ڈی وینس کے بیان پر مائیکل کوگلمین نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ وینس کا بیان ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ امریکہ کو انٹرنیشنل تنازعات میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ امریکہ انڈیا اور پاکستان کشیدگی میں کمی کا خواہاں ہے لیکن وہ فریقین میں کشیدگی کم کروانے کے لیے بہت آگے تک نہیں جائے گا۔ یہ پچھلی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کے برعکس ایک بڑی تبدیلی ہو گی۔ لیکن کچھ دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی رہنماؤں کے چند بیانات پر یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں ہو گا کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کروانے میں ہچکچا رہا ہے۔
امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ’امریکہ بالکل ہچکچا نہیں رہا اور اس سارے عمل میں شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی سیکریٹری خارجہ مارک روبیو کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور وزیرِ خارجہ سے ٹیلیفونک رابطے ہوئے ہیں جن کے بعد امریکہ سے جاری بیانات میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری روبیو نے دونوں ممالک سے کشیدگی میں کمی لانے کی درخواست کی ہے اور ’پاکستان اور انڈیا کے درمیان براہ راست بات چیت‘ پر زور دیا ہے۔سابق سفیر ملیحہ لودھی نے ان رابطوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر امریکہ کشیدگی کم کروانے کی کوششوں میں شامل نہیں ہوتا تو سیکریٹری روبیو دونوں ممالک میں بار بار فون نہیں کر رہے ہوتے۔
انڈیا کا پاکستانی فضائی حملوں میں بھاری نقصان کا اعتراف
قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک پروفیسر محمد شعیب کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے پاکستان بھارت تنازعے پر غیر جانبدار مؤقف اپنایا ہے اور ثالثی کی پیشکش بھی کی ہے۔‘
امریکہ کی ہچکچاہٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ اس کی دو وجوہات ہیں: ’پہلی یہ کہ امریکہ ایک وقت میں یوکرین، ایران، غزہ، چین اور کینیڈا میں الجھا ہوا ہے۔ دوسری یہ کہ ٹرمپ پاکستان اور انڈیا کو ایک تاریخی تنازع قرار دے رہے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں امید ہے کہ کشیدگی کم ہونے سے پہلے کچھ لڑائی ضرور ہو گی۔‘ لیکن تمام ہی تجزیہ کاروں کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ بھلے ہی امریکہ پاکستان اور انڈیا میں زیادہ دلچسپی نہ لے رہا ہو لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ واشنگٹن جنوبی ایشیا کے دو جوہری ممالک پر نظر نہ رکھ رہا ہو۔
پروفیسر شعیب کہتے ہیں کہ ’امریکہ فی الحال ہچکچاہٹ کا شکار ضرور نظر آ رہا ہے لیکن ان کی جانب سے فریقین سے رابطے کرنے کا بنیادی کام ضرور کیا جا رہا ہے۔ اگر یہ تنازع مزید بڑھتا ہے تو یقیناً امریکی سرگرمیاں بھی بڑھیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان طاقت کے کنٹرولڈ استعمال سے کوئی مسئلہ نہیں مگر یہ دونوں ممالک کوئی خودکش راستہ اپناتے ہیں تو یقیناً امریکہ بھی فریقین سے رابطے بڑھا کر اس تنازع کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو بڑھائے گا۔