عمران خان اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرنے کو تیار کیوں نہیں؟

تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ اڈیالہ جیل میں کرپشن الزامات پر قید عمران خان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

انہوں نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی اگر وہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنی سیاست میں اعتدال لائیں اور حقیقت پسندی اپنائیں، تو شاید انکے لیے کوئی راستہ نکل آئے۔ مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی ضد، انا اور ذات کے گنبد سے باہر نکلیں۔

روزنامہ جنگ میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جیو نیوز سے وابستہ سینیئر صحافی اعظم ملک کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا سفر ایک ایسے خواب سے شروع ہوا تھا جس نے نوجوانوں، متوسط طبقے اور اُن لوگوں کو اُمید دلائی تھی جو ماضی کی گندی سیاست سے بدظن ہو چکے تھے۔ کرکٹ کے میدان سے اُبھرنے والا ایک سپر سٹار جب کرپشن کے خاتمے اور ریاستِ مدینہ بنانے کے نعرے کے ساتھ سیاست میں داخل ہوا تو لاکھوں لوگوں نے اُسے اپنا نجات دہندہ سمجھا۔ عمران خان کے گرد ایک ایسی شخصیت پرستی تشکیل دی گئی جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں منفرد تھی۔ مگر سیاست صرف نعرے، مقبولیت یا جوش و خروش کا کھیل نہیں، یہ تدبر، لچک، سمجھوتے، اور وقت کی نبض پہچاننے کی سائنس بھی ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اس سائنس کو سمجھنے میں بُری طرح ناکام رہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ خطے میں حالات بڑی تیزی سے بدل رہے تھے۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان کیلئے ایک نئی علاقائی حقیقت وجود میں آئی تھی۔ چین، وسطی ایشیائی ریاستیں، ایران اور عرب دنیا پاکستان کیساتھ نئے تعلقات کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ پاکستان کی سٹرٹیجک اہمیت ایک بار پھر عالمی سطح پر نمایاں ہو رہی تھی۔ مگر اس سارے تناظر میں، جب ریاستِ پاکستان ادارہ جاتی یکجہتی کی طرف بڑھ رہی تھی، عمران نے ریاستی اداروں خصوصا فوج سے تصادم کی راہ اپنا لی، انہوں نے فوجی قیادت پر براہِ راست تنقید کو اپنی حکمت عملی بنا کر اپنی سیاسی قبر خود کھودی۔

عمران خان کو چاہئے تھا کہ وہ عوامی پذیرائی اور اقتدار ملنے کے بعد اپنی مقبولیت کو ایک سنجیدہ ریاستی کردار میں ڈھالتے، جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے 1971 کی فوجی شکست کے بعد ایک نیا پاکستان کھڑا کیا۔ مگر عمران خان کی سیاست کا مرکز اپنی ذات اور اپنی انا بن چکی تھی۔ اُنہوں نے نہ کسی اتحادی کو برداشت کیا، نہ کسی اختلافی آواز کو سنا، اور نہ ہی کوئی سیاسی مشورہ مانا۔ تحریک انصاف نے ایک وقت پر ملک کی سب سے بڑی جماعت کا درجہ حاصل کر لیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب عمران اگر صرف 20 فیصد بھی تدبر، لچک اور مفاہمت کا مظاہرہ کرتے، تو آج اُنکی جماعت ریاست کی ایک فعال پارٹنر ہوتی۔ مگر اُنہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت اُن وکلاء کے سپرد کر دی جن کیلئے سیاست صرف عدالت کے کمرے میں لڑی جانے والی جنگ تھی۔ آج جب کہ پاکستان علاقائی سطح پر ایک نئی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سعودی عرب، چین، متحدہ عرب امارات، ترکی وغیرہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات پر بات کر رہے ہیں، عسکری قیادت نے سیاسی معاملات سے پیچھے ہٹ کر ایک ایسا پیغام دیا ہے کہ اب ریاست صرف آئینی فریم ورک کے اندر چلے گی۔

فیلڈ مارشل کا خطاب اور پراوین سوامی کی درفنطنیاں

اعظم ملک کہتے ہیں کہ ایسے میں اگر سول حکومت، خاص طور پر وزیرِ اعظم شہباز شریف مہنگائی پر قابو پا لیں، گورننس بہتر ہو جائے اور روزگار کی فراہمی ممکن ہو جائے تو عمران کیلئے سیاسی میدان میں رہی سہی جگہ بھی باقی نہیں رہے گی۔ لیکن حکومت بھی فی الحال اُس سطح پر کارکردگی نہیں دکھا پا رہی جسکی عوام کو توقع ہے۔ حکومت کیلئے یہی وقت ہے کہ وہ ریلیف پیکیج دے، سبسڈی لائے اور عوامی مفادات کو اپنی ترجیح بنائے۔ ورنہ جو خلاپیدا ہو گا، وہ کسی اور نعرہ باز کو سیاسی جگہ دے گا۔

اعظم ملک کے بقول، اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو جب بھی کسی لیڈر نے ریاست سے ٹکر لینے کی کوشش کی، اس کو شکست ہی ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال سامنے ہے۔ وہ ایک مقبول ترین لیڈر تھے، مگر جب اُنہوں نے ف2ج کو چیلنج کرنا شروع کیا، تو نظام میں دراڑیں پڑ گئیں، اور وہ خود اُس دراڑ میں دفن ہو گئے، چاہے اس عمل میں امریکہ نے جنرل ضیا کی حمایت کیوں نہ کی ہو۔ نواز شریف نے بھی دو بار یہ غلطی کی، اور دونوں بار اُنہیں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بینظیر بھٹو نے اگرچہ فوج اور ایجنسیوں سے سخت لڑائیاں لڑیں، لیکن کبھی اپنی سیاست چمکانے کے لیے ریاست کو گندا نہیں کیا۔عمران خان نے اس تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آج بھی اگر وہ ہوش کے ناخن لیں، اپنی سیاست میں اعتدال، مفاہمت اور حقیقت پسندی اپنائیں، اپنی پارٹی میں سیاسی ذہن رکھنے والے لوگوں کو آگے لائیں، تو شاید کوئی راستہ نکل آئے۔ مگر ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ اپنی ضد اور انا سے باہر نکلیں۔ سیاست صرف سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بنانے کا نام نہیں بلکہ زمین پر رہنے والے کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کا معاملہ ہوتی ہے۔ لہذا خان صاحب کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔

Back to top button