غیر قانونی افغانیوں کو پاکستان سے واپس بھیجنا کیوں ضروری ہے؟

ملک میں ہونے والی شرپسندانہ کارروائیوں میں افغانیوں کے شامل ہونے کے مصدقہ ثبوت سامنے آنے کے بعد پاکستان  کی جانب سے بڑے پیمانے پر غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کی ملک بدری کی مہم جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری اس پالیسی کو جہاں دفاعی ماہرین کی طرف سے سراہا جا رہا ہے وہیں بعض سیاسی رہنما سیکیورٹی مے معاملات پر بھی اپنی سیاست چمکاتے ہوئےحکومت کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ تاہم اکثریتی مبصرین کا ماننا ہے کہ غیر قانونی مقیم افغانیوں کی ملک بدری سے جہاں حکومت شرپسندانہ کارروائیوں پر قابو پانے میں کامیاب ہو گی وہیں افغان مہاجرین کو ڈی پورٹ کرنے کے نتیجے میں افغان طالبان پاکستان کے خلاف عسکریت پسندوں کی پشت پناہی بھی کر سکتے ہیں اور بھارت بھی اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اورافغان طالبان کے درمیان پیچیدہ اور کشیدہ نوعیت کے تعلقات محض مخالف سفارتی بیانات تک محدود نہیں ہیں۔سن 2001 میں امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں متعدد عسکریت پسند تنظیموں نے تحریک طالبان پاکستان نامی ایک گروپ تشکیل کیا تھا، جو دراصل افغان طالبان کی ایک شاخ تھی۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی نے اپنی تشکیل کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ چونکہ پاکستانی حکومت نے 2001ء میں شروع ہونے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا، اس لیے پاکستانی فوج  کے خلاف لڑنا جائز ہے۔ تب سے ٹی ٹی پی پاکستان میں سینکڑوں حملے کر چکی ہے۔ان میں 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر کیا جانے والا حملہ بھی شامل ہے، جس کے بعد پاکستان حکام اور افواج نے دہشت گردوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ نتیجتاﹰ پاکستان میں مقیم زیادہ تر عسکریت پسند افغانستان منتقل ہوگئے تھے، جہاں سے انہوں نے پاکستان پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ سن 2021ء میں افغان طالبان کے کابل میں دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ان حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ملکی بدری کی مہم کے بارے میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس مہم کو اگر افغان طالبان کی نظر سے دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ اس اقدام کا مقصد ان پر ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر زور ڈالنا ہے۔تاہم حکومت پاکستان کے اس عمل سے پاکستان میں طویل عرصے سے مقیم افغانیوں کے حقوق ضرور پامال ہو رہے ہیں تاہم بعض دیگر مبصرین کے مطابق  پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغان مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزی کے بیانات ایک افسانوی بیانیے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔پاکستان کا غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کا فیصلہ ایک خودمختار حق ہے جو سکیورٹی ، معاشی تناؤ اور قانونی نفاذ کے مطابق ہے لیکن پھر بھی اسے غیر متناسب تنقید کا سامنا

ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق غیر قانونی تارکین وطن سے متعلق پاکستان کی پالیسی عالمی اصولوں کے مطابق ہے، کوئی بھی ملک غیر معینہ مدت تک غیر قانونی تارکین وطن کی میزبانی کرنے کا پابند نہیں ہے اور پاکستان اپنی سلامتی، معیشت اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے قانونی اور منصفانہ پالیسی کو نافذ کر رہا ہے۔

ہمارے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہیں : حامد خان

ایک طرف نئی ٹرمپ انتظامیہ بغیر کسی ردعمل کے قومی سلامتی کے خدشات کے تحت ہزاروں افراد کو ملک بدر کر رہی ہے لیکن دوسری طرف پاکستان کو ایسے ہی قوانین کے نفاذ پر تنقید کا سامنا ہے۔پاکستان کی جانب سے غیر قانونی تارکین کی ملک بدری پر بے بنیاد پراپیگنڈا کرنے والے افغان متاثرین ٹرمپ کی پالیسی پر خاموش ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں افغان پناہ گزین پھنسے ہوئے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق 1951 کے اقوام متحدہ کے پناہ گزین کنونشن کے غیر دستخط کنندہ کے طور پر پاکستان پر پناہ گزینوں کو ایڈجسٹ کرنے یا قانون سازی کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے، افغان شہری کسی بین الاقوامی عزم کی وجہ سے نہیں بلکہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر پاکستان میں موجود ہیں۔اگر مغرب کو واقعی پاکستان میں غیر قانونی مقیم افغانیوں کی اتنی پرواہ ہے تو اسے اپنے ممالک کے دروازے شرپسند افغانیوں کیلئے کھول دینے چاہیں

Back to top button