بیمار پاکستانی معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے بیمار ہونا لازمی کیوں؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے ہم سب لوگ بیمار ہیں، بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم سب ایک بیمار معاشرے کے باسی ہیں اور ایسے معاشرے میں رہنے والوں کا بیمار ہو جانا ایک فطری عمل ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ صرف میں ہی بیمار نہیں ہوں، ہم سب بیمار ہیں، ہم سب ابنارمل ہیں، دراصل ہمارے حالات و واقعات ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔ ابنارمل حالات ابنارمل لوگ پیدا کرتے ہیں۔ خودکش بمباروں کے دیس میں زندگی کی دعا کرنے والے کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ جہاں سب بیمار ہوں، وہاں آپ صحت مند کیسے رہ سکتے ہیں؟ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی معاملات کو نارملائز کیا جائے، دشمنیاں، نفرت، طعنے، احتجاج، مارکٹائی، تشدد اور انتقام دونوں فریقین کو ابنارمل کر رہے ہیں، یاد رہے نارمل لوگ حالات کا شکار کرتے ہیں اور ابنارمل لوگ حالات کا شکار بنتے ہیں، افسوس کہ ہم بھی ایک بیمار معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ابنارمیلٹی کا شکار ہو چکے ہیں، ایسے میں بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ ہم نارملائزیشن کی طرف واپس لوٹ چلیں۔
سہیل وڑائچ کے مطابق بیماریوں کو چھپانا ہمارا سماجی رویہ ہے، مگر اس روایت کو توڑتے ہوئے میں سرعام اعتراف کرتا ہوں کہ میں بیمار ہوں۔ نہ صرف یہ کہ مجھے جسمانی عوارض لاحق ہیں بلکہ میں نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہوں۔ ہر پروفیشن کی مخصوص جسمانی اور نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں، ٹیکسٹائل ملز کے مزدور کپاس کے ذرات سے ٹی بی کے مریض بن جایا کرتے تھے، آرٹسٹوں اور کاتبوں کی بینائی کمزور ہو جاتی تھی، صحافیوں میں ناقدانہ نظر سے معاملات دیکھنے سے چڑچڑا پن آجاتا ہے، وزیروں اور اہل اقتدار کی گردن میں سریا آبجاتا یے اور وہ متکبر ہو جاتے ہیں۔ انہیں اپنے علاوہ سب لوگ بیوقوف لگتے ہیں حالانکہ وہ خود کو عقل کل سمجھ کر توازن سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، زیادہ تر ٹیکی ویژن اینکرز شہرت کے اس قدر بھوکے ہو جاتے ہیں کہ وہ خالی سڑک پر بھی اپنے مداح ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ عہدے ان کا حق ہیں۔ ہٹنے کے بعد انہیں یہ بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ وہ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ ہی کہلائیں، لہٰذا بقیہ زندگی میں انکی یہ خواہش ایک بیماری بن جاتی ہے اور وہ اسی جستجو میں لگے رہتے ہیں کہ دوبارہ کیسے اس عہدے تک پہنچیں۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں، ہمارے ہاں سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر اعلیٰ سے بھی انکا سٹاف "یس پرائم منسٹر” اور "یس چیف منسٹر” کہہ کر ہی مخاطب ہوتا ہے تاکہ انہیں خوش کر سکے، چاہے انہیں اس عہدے سے ہٹے برسوں گزر چکے ہوں، یہ بیماری نہیں تو اور کیا ہے؟ بیشتر لوگ اپنے گھر والوں سے عزت کرانے کی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اپنی افسری یا اپنا اقتدار دفتر چھوڑ کر نہیں آتے، وہ گھر میں بھی افسر اور صاحب بن کر اکڑے پھرتے ہیں۔ مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ ان مریضوں میں سے ایک میں بھی ہوں۔ میں شہرت کا بھوکا ہوں، میں ہر ایک سے توقع کرتا ہوں کہ نہ صرف مجھے پہچانے جائے بلکہ اس کا اعتراف بھی کیا جائے، میرا اپنے جھوٹے اثرورسوخ پر ناز کرنا اب بیماری کی صورت اختیار کر چکا ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرے ارد گرد سب کچھ میری مرضی کے مطابق ہو۔ میری جھوٹی انا میرے جسمانی قد سے بڑھ کر ایک جن بن چکی ہے، اس لئے ہر حرف اختلاف میری طبعِیت پر گراں گزرتا ہے، کوئی میری اصلاح کیلئے بھی مشورہ دینے کی کوشش کرے تو مجھے اپنا دشمن لگتا ہے، مجھے یوں لگتا ہے کہ صرف میں ہی صحیح ہوں اور باقی سب غلط۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ میں اپنی گاڑی میں بیٹھوں تو مجھے لگتا ہے کہ سڑک پر صرف میری ہی گاڑی کا حق ہے، اپنے راستے میں آنے والی ہر موٹر بائیک یا کار مجھے واحیات ڈرائیونگ کا شکار اور راستے کی رکاوٹ لگتی ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ ’’گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔ کار بڑی ہو اور پھر مہنگی بھی ہو تو مجھے سڑک پر پیدل چلنے والے اور بائیکرز کیڑے مکوڑے لگتے ہیں۔ میں بولوں تو مجھے یقین ہوتا ہے کہ مکمل سچ صرف میرے پاس ہے اور باقی سب صحافی جھوٹے اور ایجنٹ ہیں۔ میرے خیال میں ملک کے مسائل کا جو حل میرے پاس ہے وہ نہ تو آج تک کسی کو سوجھا ہے اور نہ ہی میرے سوا کسی کو سوجھ سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے سب مخالف ملک کے غدار، کرپٹ اور بے حس ہیں اور ان غداروں کا قلع قمع کرکے ہی پاکستان بچایا جا سکتا ہے۔ میری اس خود پرستی کی بیماری نے مجھے یقین دلا دیا ہے کہ اگر میرے نقادوں سے یہ سرزمین پاک ہو جائے تو یہاں خوشحالی اور ترقی آ جائے گی۔ مجھے لگتا ہے کہ مجھ سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے وہ احمق ہیں جو دنیا کےجدید علوم اور تازہ حالات سے بے خبر ہیں، میں سمجھتا یوں کہ اس ملک کی بقا کا خیال صرف مجھے ہے، اور سب سے بڑا محب وطن بھی میں ہی ہوں۔ جو لوگ میری طرح نہیں سوچتے وہ سب ناقابل معافی ہیں، میں ہی پاکستان ہوں، میں ہی سب سے عقلمند ہوں، میں ہی سب سے زیادہ پڑھا لکھا ہوں، اپنے ارد گرد مجھے صرف چھان بورہ ہی نظر آتا ہے۔ میں بیمار ضرور ہوں مگر اس کے باوجود سکہ میرا ہی چلنا چاہئے، ماہر نفسیات نے مجھے سمجھایا تھا کہ باقی دنیا بالکل نارمل ہے اور صرف آپ ابنارمل ہیں، مگر مجھے تو وہ ماہر نفسیات بھی مکمل طور پر ابنارمل لگ رہا تھا۔
سہیل وڑائچ اپنی تحریر آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میں اپنے تئیں افسر شاہی کا نمائندہ بھی ہوں، میں ہی حکومت اور اختیار کا مالک ہوں۔ اس ریاست، حکومت، اور اس رعایا کو میں ہی چلاتا ہوں، میں اپنے ملاقاتی سے آدھا ہاتھ ملاتا ہوں، اپنی سیٹ سے اٹھتا بھی ہوں تو علامتی طور پر، جسمانی طور پر نہیں، دراصل یہ میرے معیار کے لوگ ہی نہیں ہیں، انہیں مینجمنٹ اور ایڈمنسٹریشن کا کیا علم ! یہ صرف ہم ہیں جو اس ہارڈ سٹیٹ کو محنت اور تدبر سے چلا رہے ہیں یہ ملک سیاست دانوں کے ذمے ہوتا تو یہاں انتشار اور افراتفری ہوتی۔ میرے اندر میرا ایک بھائی عسکری خان بھی بیٹھا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ارض وطن کیلئے خون تو صرف میں بہاتا ہوں لیکن ہیرو دوسرے بنتے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ اہل سیاست بے تدبیر، اہل صحافت بے عقل اور عوام بھیڑ چال کے پابند ہیں، اس لئے اگر میں نے اس ریاست کو اپنی نگرانی میں نہ رکھا تو یہ غداروں کی آماجگاہ بن جائے گی اور دشمن دراندازی کرکے ریاست پر قبضہ کر لیں گے اور ملک ہی توڑ دیں گے۔ میں دل ہی دل میں خود کو ایک انصاف پسند جج بھی سمجھتا ہوں۔ میں جس بھی نظریے یا سوچ پر یقین رکھتا ہوں اسی کی نظر سے فیصلے لکھتا ہوں، سالہا سال میں زورآور طاقتوں کے ساتھ مل کر اسمبلیاں توڑنے کے شرمناک فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کرتا رہا۔ جب سیاست دانوں نے تنگ آ کر آٹھویں ترمیم ختم کی تو میں نے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے کا اختیار اپنے ہاتھ میں لے لیا اور یہ سمجھنے لگا کہ میں طاقتوروں سے بھی ذیادہ طاقتور ہو گیا ہوں، پھر میں نے ریاست، سیاست اور حکومت بھی اپنی مرضی کے مطابق چلانی شروع کر دی۔ لیکن مجھے طاقت وروں سے لڑائی مہنگی پڑ گئی، اب میں لرزتے ہاتھوں سے اپنی طاقت و اختیار کی آخری جنگ لڑ رہا ہوں۔
مقبوضہ کشمیر حملہ : بھارت پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہتا ہے،سربراہ سکھ فار جسٹس
میں جو کوئی بھی ہوں، صحافی ہوں یا عسکری ، سیاست دان ہوں یا عام آدمی، جج ہوں یا مدعی ، بیوروکریٹ ہوں یا سرخ فیتے کا شکار متاثرہ آدمی، میری سوچ بھی باقی سب بیمار لوگوں جیسی ہے۔
لیکن صرف میں ہی بیمار نہیں ہم سب بیمار ہیں، ہم سب ابنارمل ہیں، اور ہمارے حالات و واقعات ہمیں مذید بیمار کر رہے ہیں۔