عمران خان کے لیے شہباز حکومت کو گرانا اب ممکن کیوں نہیں رہا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اپنی تازہ تحریر میں ملکی سیاسی منظر نامے سے متعلق کئی سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کو فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور اگر کوئی حادثہ رونما نہ ہوا تو موجودہ نظام اپنی مدت پوری کرے گا۔
روزنامہ جنگ کے لیے "امتحانی سوالات اور انکے منطقی جوابات کے عنوان سے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ شہباز حکومت کو فی الوقت فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے جس کی وجہ انکی شخصیت میں پائے جانے والی لچک ہے۔ وہ فوج کو ناراض ہونے کا ذرہ برابر بھی موقع نہیں دیتے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ نہ تو اپنے عہدے کے پروٹوکول کی پروا کرتے ہیں اور نہ ہی بطور وزیر اعظم ملک کے چیف ایگزیکٹو کو حاصل کردہ اختیارات کے استعمال پر ضد کرتے ہیں، آرمی چیف شہباز شریف سے ملنے جائیں تو وہ خود باہر جا کر ان کا استقبال کرتے ہیں حالانکہ پروٹوکول اس کے الٹ ہے۔ دوسری طرف فوج ان کی شبانہ روز محنت اور کارکردگی پر خوش نظر آتی ہے، البتہ میاں نواز شریف فوجی قیادت سے اتنا تعلق واسطہ نہیں رکھتے جتنا شہباز شریف رکھتے ہیں، پہلے وفاق اور پنجاب میں کچھ عرصہ دوری نظر آ رہی تھی مگر اب چچا اور بھتیجی قریب آتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ مریم نواز کو فوجی قیادت کی جانب سے کھلی آزادی اور خود مختاری حاصل ہے وہ اپنے فیصلے خود کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیصلہ سازی میں وفاق جیسا دباؤ پنجاب حکومت پر پڑتا ہوا نظر نہیں آتا۔ انکا کہنا ہے کہ دوسری جانب وزیر اعظم شہباز شریف کے ہاتھ فیصلہ سازی کے حوالے سے کافی حد تک بندھے ہوئے ہیں اور انہیں اتنی سپیس حاصل نہیں جتنی مریم نواز کو دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اب عوام کے سامنے آ کر کھلے عام اپنی بات کر رہی ہیں، اور وہ دن چلے گئے جب پی ٹی آئی کی قیادت انہیں ہجوم سے خوف دلایا کرتی تھی۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ 26 نومبر 2024 کو جس طرح تحریک انصاف کی مرکزی قیادت اور کارکنان جوتیاں اٹھا کر فرار ہوئے اس کے بعد سے اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سٹریٹ پاور اور ایجی ٹیشن کا خوف بھی درپیش نہیں رہا۔ لہٰذا اگرکوئی حادثہ رونما نہ ہوا تو موجودہ سیاسی نظام آگے بھی چلتا ہوا نظر آتا ہے، اب عدلیہ، امریکہ اور عوامی احتجاج کے خطرات زائل ہو چکے ہیں۔ لیکن انکا کہنا یے کہ موجودہ سیاسی نظام کو تب تک فوج کی مکمل حمایت حاصل رہے گی جب تک ان کا مشترکہ دشمن یعنی عمران خان بہت ذیادہ کمزور یا ختم نہیں ہو جاتا۔ جب یہ ہدف پورا ہو جائے گا تو پھر فوجی قیادت اور سیاسی حکومت کے اتحاد میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں۔
سہیل وڑائچ اپنے تھیسز کی مزید وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اتحاد، اشتراک اور تعاون تبھی تک چلتے ہیں جب تک مفادات یا دشمن مشترک ہوں، پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ماضی کا سبق بھی یہی ہے اور مستقبل میں بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ سہیل وڑائچ بتاتے ہیں کہ 1977 کے انتخابی نتائج کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے قومی اتحاد کے نام سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک نظام مصطفی شروع کر دی۔ تب کے فوجی سربرا جنرل ضیاء الحق نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں مارشل نافذ کر دیا جس کے نتیجے میں بھٹو کی حکومت تو ختم ہوئی لیکن قومی اتحاد والے بھی فارغ ہو گئے۔ یعنی نہ تو اپوزیشن کے ہاتھ کچھ آیا اور نہ ہی حکومت بچی جس کا فائدہ تیسرے فریق جنرل ضیاء الحق جہنمی نے اٹھایا اور پھر 10 برس تک ملک پر حکمران رہا۔
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ کیا عمران خان اور فوج کے درمیان محاذ آرائی ختم ہو پائے گی؟ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جس روز دونوں میں سے ایک بھی فریق میں لچک پیدا ہوگئی اسی دن مصالحت ہو جائے گی، وگرنہ تحریک انصاف کے حامی دعا کریں کہ کسی طرح فوج اور شہباز حکومت کے مابین کوئی بڑا اختلاف پیدا ہو جائے جس کا شہباز کی شخصیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا کچھ بھی نہیں بنے گا۔ تحریک انصاف کا صرف ایک ہی لیڈر ہے اور وہ ہے عمران خان۔ باقی کسی بھی بڑے نام کی تنکا برابر بھی حیثیت نہیں، عمران کی اپنی پارٹی کے اندر اتنی مضبوط پوزیشن ہےکہ وہ جسے چاہے نکال دے اور جسے چاہے پارٹی کا چیئرمین بنا دے، ایسے کسی بھی فیصلے پر اس کے حامیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا بلکہ وہ ان فیصلوں کو خوش دلی سے تسلیم کریں گے۔ رمضان کے بعد عمران خان کی جانب سے ایک نئی حکومت مخالف تحریک چلانے کے امکان پر بات کرتے ہوئے سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ اب ہی ٹی آئی تنِ تنہا کوئی ایسی بڑی تحریک چلانے کی متحمل نہیں ہو سکتی مگر گرینڈ اپوزیشن اتحاد کے مولانا فضل الرحمٰن ایک نیا ٹرمپ کارڈ ہیں، دیکھنا یہ ہوگا کہ مولانا فضل الرحمٰن اس حوالے سے کتنا سرگرم کردار ادا کرتے ہیں، ان کے پاس منظم کارکن موجود ہیں جن سے ریاست محاذ آرائی میں متذبذب ہوگی کیونکہ ردعمل میں مذہبی شدت پسندی بڑھے گی اور طالبان اور فضل الرحمٰن کے حامی مل کر ریاست کیلئے خطرہ بن سکتے ہیں۔
عمرانڈو ججز نے چیف جسٹس آفریدی کی ناک میں دم کیسے کر رکھا ہے ؟
سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بار بار مولانا فضل الرحمن کے پاس جا کر انہیں رام کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن مولانا نے بھی اپنی حمایت کے عوض خیبر پختون خواہ میں الیکشن 2024 میں صوبے میں ہوئی دھاندلی کی وجہ سے کھونے والی سیٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا کی سٹریٹ پاور اج بھی تگڑی ہے، لیکن جہاں تک تحریک انصاف کا تعلق ہے۔ اسکے حامی دباؤ، تشدد یا تھکاوٹ اور لاتعلقی کے باعث احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے بالخصوص پنجاب میں تحریک انصاف بدستور مقبول ترین جماعت ہونے کے باوجود اپنے حامیوں پر اپنی گرفت کھو چکی ہے اس کے حامی عمران خان کو ووٹ تو دے دیں گے لیکن وہ مزید گرفتاریوں، جیلوں یا قربانیوں کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔
اس سول پر کہ کیا پاکستان اس وقت محاصرے میں ہے؟ سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ بظاہر تو ایسے ہی لگتا ہے کہ پاکستان اپنے دشمنانِ یعنی بھارت اور افغانستان کے گھیرے میں ہے، دونوں طرف سے مسلسل حملے اور محاذ آرائی جاری ہے مگر پاکستان نے بنگلہ دیش سے دوستی کی جو نئی راہیں کھولی ہیں اس سے ریاست کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ افغانستان کے اندر بھی وہاں کی حکومت کے خلاف محاذ بن رہا ہے اور اگر طالبان حکومت کا یہی رویہ رہا تو پاکستان بھی افغان حکومت کے خلاف کوئی بڑا فیصلہ کر سکتا ہے۔