انڈیا کے لیے پاکستان پر جنگ مسلط کرنا آسان کیوں نہیں ؟

تحریک انصاف کے لیے ہمدردی رکھنے والے معروف لکھاری کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے کہا ہے کہ بھارت کے لیے پاکستان پر جنگ مسلط کرنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ سمجھا جا رہا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں دوسری طرف غزہ اور حماس نہیں۔ ورنہ حملہ کرنا ہوتا تو بھارت کو اتنی مشکل نہ ہوتی۔ پاکستان پر بھارتی حملہ نہ صرف ہو چکا ہوتا بلکہ اسرائیل کی طرح مسلسل جاری رہتا۔ لیکن غزہ والی صورتِ حال یہاں نہیں ہے۔ بھارت بڑا ملک ہے‘ اس کے وسائل زیادہ ہیں‘ اس کی معیشت بھی بہت آگے ہے، لیکن فوجی طاقت کا توازن ایسا نہیں کہ بھارت اپنی مرضی کر سکے اور پاکستان پر یکطرفہ جنگ مسلط کر سکے۔

کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر کہتے ہیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ ضرور کرنا چاہتا ہوگا، لیکن خواہش رکھنا ایک بات ہے اور اس کو پورا کر دکھانا مختلف چیز ہے۔ 2019 میں پلوامہ میں ایک خودکش حملے میں 40 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بالاکوٹ میں ہونے والی بھارتی دراندازی کا پاکستان نے جس طرح بھرپور جواب دیا کا اس گہرا اثر بھارتی فیصلہ سازوں کے ذہنوں پر اب تک موجود ہے۔ 2019 میں بھارت کی جانب سے دراندازی تو ہوئی لیکن ہندوستان کا ایک لڑاکا جہاز مار گرایا گیا اور ہندوستانی پائلٹ بھی پکڑا گیا۔ تب ہندوستانی قیادت میں یہ فکر پیدا ہوئی تھی کہ اُن کی دفاعی طاقت بڑھنی چاہیے۔ بھارت کے دفاعی بجٹ میں اضافہ بھی ہوا لیکن ہندوستان کے دفاعی ماہرین خود اعتراف کرتے ہیں کہ بھارت کی دفاعی قابلیت اب بھی اُس معیار کی نہیں جیسا کہ وہ چاہتے ہیں۔ اُن کا ذیادہ دفاعی ساز و سامان اب بھی پرانے وقتوں کا ہے جسے سٹیٹ آف دی آرٹ دفاعی ساز وسامان کہا جا سکتا ہے۔ اگر بھارت کو پاکستان پر اصلی دفاعی برتری حاصل ہوتی تو سرجیکل سٹرائیک کرنے میں بھارت نے کوئی دیر نہیں لگانی تھی۔

ایاز میر کہتے ہیں کہ اگر آپ بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ وہاں جنگی جنون آسمانوں کو چھو رہا ہے۔ انکے دفاعی تجزیہ کاروں کی باتیں سنیں تو لگتا ہے کہ حملہ آج شام نہیں تو کل ہونے والا ہے۔ مگر بھارت ایسا کر نہیں سکتا۔ اگر ہمارے شہر اُن کی فضائی رینج میں ہیں تو بھارت کا بھی کوئی حصہ نہیں جہاں ہماری مار نہ ہو سکے۔ پاکستان کی طرف سے بھی بڑے دھواں دھار قسم کے بیانات آئے ہیں۔ شاید پاک بھارت تعلقات کا یہ خاصا ہے کہ جب کسی وجہ سے بھی تناؤ بڑھتا ہے تو اس قسم کے بیانات دونوں اطراف سے جاری ہونے لگتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی Panic نہیں پھیلا۔ لوگوں کا ردِعمل بڑا نارمل قسم کا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اختصار سے کام لینا اور بڑھکوں پر نہ اُترنا ایک پُراعتماد قوم کی نشانی ہوتی ہے۔

 ریٹائرڈ کیپٹن ایاز امیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل اپنی جنگی صلاحیت یا مہارت کے بارے میں زیادہ دعوے نہیں کرتا۔ اس نے جو کرنا ہو وہ کر دکھاتا ہے۔ بھارت میں جو جنون زیادہ نظر آتا ہے اُس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خواہشات اور کچھ کرنے میں کافی فاصلہ ہے۔ لیکن جب پاکستانی فوج کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ حملے کی صورت میں ہم دشمن کے دانت کھٹے کر دیں گے تو ایسا کر کے دکھایا بھی جاتا ہے۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس بات پر ماتم کیا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے ہی تناؤ کا شکار ہیں۔ آپس کے مسائل تو ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوشش کی جاتی اور مدبرانہ صلاحیتیں دونوں اطراف ہوتیں تو تعلقات قدرے نارمل بھی ہو سکتے تھے۔ بھارت کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورتحال پاکستان کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ ہمارا یہ یقین کہ بھارت ہماری سرزمین پر کوئی بڑا حملہ نہیں کر سکتا پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ اس آگاہی سے پاکستان کے حوصلے بڑھتے ہیں‘ لیکن کتنا اچھا ہو کہ ایسے موقع پر ہم یہ کہہ سکیں کہ دفاعی تیاریوں کے ساتھ اندرونی طور پر بھی ہماری صفیں مضبوط ہیں۔ داخلی سطح پر ایسی کھینچا تانیاں ابھی جاری ہیں جو رک جائیں تو ملک وقوم کی حالت زیادہ بہتر لگے۔

جنگ چھڑی تو انڈیا کے مقابلے میں کونسا ملک پاکستان کا ساتھ دے گا ؟

ایاز امیر کا کہنا ہے کہ جہاں ہمیں ہندوستانی ارادوں پر نظر رکھنی چاہیے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اندرونی ملکی سیاسی استحکام کی گنجائش بھی پیدا کی جائے تا کہ سیاسی محاذ آرائی ختم ہو اور ہر چیز قانون اور آئین کے دائرے میں لائی جائے۔ اُس سے نہ صرف داخلی اطمینان بڑھے بلکہ قومی وحدت زیادہ نمایاں نظر آنے لگے۔

Back to top button