پاک بھارت حملوں کے دوران نواز شریف پرسرار طور پر خاموش کیوں ؟

پاکستان اور بھارت کے مابین فضائی حملوں اور جوابی حملوں کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی پراسرار خاموشی پر ان کے ناقدین کی جانب سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ نواز شریف کی خاموشی کو معنی خیز قرار دے کر یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا اس کی وجہ میاں صاحب کے نریندرا مودی کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں یا کاروباری مفادات نے انہیں خاموش کروا دیا ہے۔

پاک بھارت کشیدگی نے ایک بار پھر خطے کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ حالیہ تنازعے میں اب تک 35 پاکستانی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس نازک صورتحال میں پاکستان کے سیاسی حلقوں اور عوام کی نظریں سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف پر مرکوز ہیں، جو اس سنگین بحران کے دوران غیر معمولی طور پر خاموش ہیں۔ میاں صاحب کے ووٹرز اور سپورٹرز ان کی طرف سے بھارتی جارحیت کے خلاف ایک واضح موقف اپنائے جانے کے منتظر ہیں لیکن ان کی پراسرار خاموشی ان کی سیاسی ساکھ کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

معروف صحافی اور تجزیہ کار ارشاد احمد عارف کا کہنا ہے کہ نواز شریف جیسے تجربہ کار سیاست دان کی خاموشی عوام میں شکوک و شبہات پیدا کر رہی ہے۔ ان کے بقول، ”یا تو نواز شریف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اپنے دیرینہ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے، یا پھر وہ سیاست سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔‘‘ ارشاد عارف نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اپنے لیڈر نواز شریف کے اس رویے کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے میاں صاحب آخر کرنا کیا چاہتے ہیں؟

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ یہ وقت پاک فوج اور قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے۔ نواز شریف کو عوام اور اپنی پارٹی کو متحرک کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کی کھل کر مذمت کرنا چاہیے، انہیں عالمی رہنماؤں سے رابطے کر کے بھارت کی جانب سے معصوم اور نہتے پاکستانی شہریوں پر حملوں کی حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ خاص طور پر، نواز شریف کو اور پھر دوست نریندرا مودی کو ایک واضح پیغام دینا چاہیے کہ وہ خطے کے امن کو خطرے میں ڈالنے سے باز رہیں اور ساؤتھ ایشیا کو ایک بڑی جنگ کی جانب دھکیلنے کی کوشش مت کریں۔

مجیب الرحمان شامی نے 2015 کا وہ موقع یاد کروایا جب مودی کابل سے دہلی جاتے ہوئے اچانک لاہور میں نواز شریف کے گھر پہنچ گئے تھے اور شریف خاندان کی ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جیل میں قید عمران خان اپنے اختلافات بھلا کر پاکستان کے ساتھ یکجہتی دکھا سکتا ہے، تو نواز شریف کو ایسا کرنے میں کیا مسئلہ درپیش ہے؟شریف خاندان کے بھارت کے ساتھ  کاروباری تعلقات پر سوال اٹھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی عوام نے نواز شریف کو تین بار وزیر اعظم، ان کے بھائی شہباز شریف کو دو مرتبہ وزیر اعظم اور بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیر اعلیٰ بنایا۔ ان کے مطابق، شریف خاندان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا لیکن نواز شریف کو کسی بھی مجبوری کو بالائے طاق رکھ کر قوم کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور بھارتی اقدامات کی مذمت کرنا چاہیے۔

9 مئی 2023 کے حملوں کا مقصد آرمی چیف کے خلاف بغاوت کرانا تھا

کچھ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نواز شریف کی خاموشی انہیں سیاسی طور پر مہنگی پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ کے بیانات نواز شریف کی جگہ نہیں لے سکتے، ”میاں صاحب کی اپنی حیثیت ہے۔ ایک ایسے نازک موقع پر کہ جب ملکی دفاع اور اس کی بقا داؤ پر لگی ہو، نواز شریف جیسے کائیاں سیاستدان کو قوم کی رہنمائی کے لیے خود سامنے آنا چاہیے اور پاکستانی افواج اور عوام کا حوصلہ بڑھانا چاہیے۔

نواز شریف کے ناقدین کا کہنا ہے کہ میاں صاحب کا خاندان ہمیشہ سے بھارت کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔ انکے مطابق میاں نواز شریف کی خاموشی کی وجہ کوئی سیاسی سمجھوتہ بھی ہو سکتا ہے، جو اب ان کے لیے زنجیر بنتا جا رہا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ وفاق میں اکثریتی حکومت چلا رہی ہے، لیکن میاں نواز شریف کی خاموشی سے لگتا ہے کہ وہ کھل کر شہباز شریف حکومت کیساتھ کھڑا نہیں ہونا چاہتے۔ ان کے مطابق، نواز شریف ہمیشہ پاکستان اور بھارت کے مابین اچھے تعلقات بنانے کے خواہاں رہے ہیں اس لیے انکا اپنے دیرینہ موقف کے خلاف بولنا آسان نہیں۔ یاد ریے کہ چند روز قبل نواز شریف نے وزیر اعظم شہباز شریف سے جاتی امرا میں ملاقات کی تھی، لیکن اس کے بعد بھی وہ کوئی بیان جاری کرنے سے گریزاں رہے۔

Back to top button