پی ٹی آئی مولانا کو اپنے ساتھ ملانے میں ناکام کیوں ہو رہی ہے؟

مولانا فضل الرحمن کو حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد کا حصہ بنانے کے لیے کوشاں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کے اپنے متضاد بیانات ہی ایسی کوششوں پر پانی پھیرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تحریک انصاف اس وقت ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ شہباز شریف کی اتحادی حکومت کے خلاف ایک بڑا اپوزیشن الائنس بنانے کی کوششوں میں ابھی تک ناکام رہنے کی ایک بڑی وجہ عمران خان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ متھے بازی کی پالیسی ہے۔ عمران کا خیال ہے کہ وہ اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف پالیسی سے فوجی قیادت کو دباؤ میں لانے میں کامیاب ہو جائیں گے جس کے نتیجے میں انہیں جیل سے رہائی مل جائے گی، تاہم ان کی اس پالیسی کا الٹا اثر ہوا ہے اور ان کی سٹریٹ پاور ختم ہو جانے کے بعد اب انکا جیل سے باہر آنے کا امکان مزید معدوم ہو گیا ہے۔
26 نومبر کے احتجاجی دھرنے کی ناکامی کے بعد عمران خان نے اپنی پارٹی قیادت کو حکم دیا تھا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کا ایک اتحاد تشکیل دے کر حکومت کے خلاف مشترکہ تحریک چلائیں۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے سب سے زیادہ زور مولانا فضل الرحمن کو اپنا ساتھی بنانے پر لگایا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے داخلی تضادات اور سیاسی مہارت کے فقدان نے ان کوشش کو خراب کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی جمعیت علمائے اسلام سے مفاہمت کی کوششیں اس کی اپنی قیادت کے متضاد بیانات کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ ایک طرف پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے عندیہ دیا کہ انکے جے یو آئی سے مذاکرات جاری ہیں اور مولانا فضل الرحمان کی بیرون ملک سے واپسی پر ایک قومی ایجنڈا پیش کیا جائے گا۔ لیکن دوسری طرف خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ظاہر ہے، جے یو آئی (ف) نے اس رویے کو مثبت انداز میں نہیں لیا اور پی ٹی آئی کی نیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ پی ٹی آئی مسلسل جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد کا بیانیہ بیچنے کی کوشش کر رہی ہے، پارٹی قیادت دوسری اپوزیشن جماعتوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ کھڑی ہوں، بصورت دیگر تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔
لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حقیقت یہ ہے کہ سیاست میں دوست بنانے کا یہ طریقہ کارگر نہیں ہوتا۔ سیاست دراصل ممکنات کا کھیل ہے، جو مفاہمت اور سفارت کاری سے ہی جیتا جاتا ہے، نہ کہ دھمکیوں اور زبردستی سے۔ اگر پی ٹی آئی واقعی چاہتی ہے کہ جے یو آئی یا اپوزیشن کی کوئی اور جماعت اس کے ساتھ کھڑی ہو، تو اسے دباؤ کی پالیسی چھوڑ کر معنی خیز مذاکرات کا راستہ اپنانا ہوگا، نہ کہ تحقیر آمیز بیانات اور جارحانہ طرزِ عمل۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ جے یو آئی کے بغیر کوئی بھی اپوزیشن اتحاد نامکمل ہو گا، کیونکہ مولانا فضل الرحمن کی جماعت عوامی طاقت کے علاوہ احتجاجی تحریک کو منظم انداز میں چلانے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کی کھلے عام فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کی پالیسی نے انکی جماعت کو سیاسی تنہائی میں دھکیل دیا ہے۔ پارٹی کے بہت سارے سینئر رہنما اپنے کپتان کی فوج سے محاذ آرائی کی پالیسی سے متفق نہیں لیکن وہ یہ پالسی تبدیل کروانے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ بھی سانحہ 9 مئی کے منصوبہ ساز کپتان کے ساتھ مفاہمت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔
تاہم پی ٹی آئی کے مسائل صرف اندرونی سیاست تک محدود نہیں، عالمی سطح پر بھی پارٹی سنگین مشکلات کا شکار ہے۔ سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ پارٹی کی یہ امید کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں امریکی انتظامیہ عمران کی جیل سے رہائی میں مدد گار ثابت ہوگی، غیر حقیقی تھی، اور امریکی صدر کی جانب سے پاکستان کے حق میں حالیہ بیان سے یہ ثابت بھی ہو گیا ہے۔ اسکے بعد امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے عمران خان کی قید کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر کسی بھی واضح ردِعمل سے گریز کیا، تجزیہ کاروں کے مطابق اس رویے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی عمران کی رہائی کے لیے بین الاقوامی مدد کی توقعات بھی بے بنیاد ہیں۔
ہنی مون پیریڈ ختم ہونے کے بعد نون لیگ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
اب، جب کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں مل رہا، اپوزیشن اتحاد بکھر چکا ہے، اور بین الاقوامی سطح پر بھی کوئی مدد حاصل نہیں ہو رہی، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کیا راستے باقی ہیں؟ تجزیہ کار کہتے ہیں عمران خان کو اپنی حکمتِ عملی پر نظرثانی کرنا یو گی۔ اگر انہوں نے حقیقت پسندانہ رویہ اپنا لیا اور سنجیدہ مذاکرات کی طرف آ گے، تو یہ صرف پی ٹی آئی ہی نہیں بلکہ پاکستان کے لیے بھی بہتر ہوگا، لیکن اگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے تو پھر نہ انکا کوئی مستقبل ہے اور نہ ہی انکی تحریک انصاف کا۔۔۔۔