وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ تنقید کی زد میں کیوں؟

رائٹ سائزنگ کے تحت مختلف وزارتوں سے لاکھوں نوکریاں ختم کر کے ملکی معاشی ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنے اور پاکستانی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے دعوے کرنے والی شہباز حکومت نے وفاقی کابینہ میں توسیع کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اسی ہفتے کے دوران مزید 14 وزیر اپنے عہدوں کا حلف اٹھائیں گے۔ وفاقی کابینہ میں توسیع کا حکومتی فیصلہ سخت عوامی تنقید کی زد میں ہے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک طرف حکومت معاشی زبوں حالی کو بنیاد بنا کر متعدد سرکاری ادارے بند کر کے ہزاروں لوگوں کو نوکریوں سے نکال رہی ہے وہیں دوسری جانب سیاسی مفاد کیلئے قریبی افراد پر نوازشات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ شہباز شریف کا اپنی کابینہ میں توسیع کی بجائے رائٹ سائزنگ کر کے نکھٹو وزراء کی چھٹی کروا کر نئے چہروں کو موقع دینا چاہیے

خیال رہے کہ شہباز حکومت کی جانب سے کابینہ میں توسیع کا یہ ’خوش کن‘ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب مسلسل حکومتی آمدنی میں اضافے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف بنفس نفیس متعدد مواقع پر فرما چکے ہیں کہ انہیں بیرونی دوروں کے دوران امداد مانگتے شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور وہ حکومتی اخراجات کم کر کے ملکی معیشت کو مزید مضبوط کرنے کے اعلانات کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم ان کے معمولات اپنے دعووں کے برعکس نظر آتے ہیں۔

 وفاقی کابینہ میں اس وقت وزیر اعظم کے علاوہ 18 ارکان شامل ہیں۔ اگر خبروں کے مطابق اس ہفتے کے آخر تک کابینہ میں توسیع کا کام مکمل ہوجاتا ہے تو وفاقی کابینہ 32 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ مبصرین کے مطابق ایک چھوٹی سی معیشت کے حامل وفاقی حکومت کو اس قدر بھاری بھر کم کابینہ کی کوئی ضرورت نہیں لیکن سیاسی ضرورتیں پوری کرنے، حلیفوں کو نوازنے اور اپنے ساتھیوں کو موقع دینے کے لیے ایسے اقدام کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ شہباز شریف کابینہ میں توسیع کرنے والے یا بڑی تعداد میں غیر ضروری طور سے وزارتیں بانٹنے والے پہلے سربراہ حکومت ہیں۔ تاہم یہ کہنا بہر حال درست ہو گا کہ موجودہ حالات میں جب وفاقی حکومت کی کارکردگی اور حق نمائندگی پر مسلسل سوال اٹھائے جا رہے ہیں، کابینہ میں توسیع کر کے سیاسی ہیجان پیدا کیا جائے گا اور قومی خزانے کو زیر بار ہو گا۔

ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ میں دو روز کے اندر توسیع کا امکان ہے اور متوقع طور پر نئے وزرا 27 یا 28 فروری کو ایوان صدر میں حلف اٹھائیں گے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں وفاقی کابینہ میں توسیع سے مستفید ہونے والوں میں متحدہ قومی موومنٹ یعنی ایم کیو ایم اور اور حکمران جماعت مسلم لیگ(ن) کے اراکین شامل ہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، طلال چوہدری اور افضل کھوکھر کو کابینہ میں شامل کیا جا رہا ہے۔وفاقی کابینہ میں توسیع کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال بھی شامل ہوں گے، بیرسٹر عقیل اور حذیفہ رحمان کو بھی کابینہ کا حصہ بنایا جائے گا۔

اس کے علاوہ عبد الرحمان کانجو اور سرادر یوسف بھی وفاقی کابینہ میں شامل ہوں گے جو گزشتہ حکومت میں بھی وفاقی وزیر کی حیثیت سے کام کرچکے ہیں، اسی طرح ڈاکٹرتوقیر شاہ وزیراعظم کے مشیر ہوں گے۔مسلم لیگ (ن) کی سیالکوٹ سے خاتون رکن اسمبلی نوشین افتخار کے علاوہ رومینہ خورشید عالم، رضاحیات ہراج اور چوہدری ریاض کو کابینہ میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔وفاقی کابینہ کے نئے اراکین کی حلف برادری کی تقریب 27 یا 28 فروری کو ایوان صدر میں ہوگی۔

 کابینہ میں توسیع کی خبروں کے بعد وفاقی وزراء کی کارکردگی بھی سیاسی وعوامی حلقوں میں موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔

تمام 5 ججز متفق تھے سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا : جج آئینی بینچ

پاکستان میں پارلیمانی نظام، جمہوریت اور حکمرانی کے شعبوں میں کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے پلڈاٹ نے پہلے پارلیمانی سال میں وفاقی وزرا کی کارکردگی کی جائزہ رپورٹ جاری کر دی ہے۔پِلڈاٹ کے مطابق سینیٹر اعظم نذیر تارڑ 2024-2025 سیشن کے دوران پارلیمنٹ میں اپنی کارکردگی کے لحاظ سے وفاقی کابینہ کے سب سے زیادہ بااثر اور موثر ممبر کے طور پر ابھرے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ کے پاس تین اہم محکموں کا قلمدان ہے جن میں قانون اور انصاف ، انسانی حقوق اور پارلیمانی امور کے محکمے شامل ہیں۔ انہوں نے سب سے زیادہ 38 حکومتی بلوں کی منظوری کروائی۔ خواجہ محمد آصف نے پارلیمنٹ کے 69 سیشنز (44 فیصد) میں شرکت کی اور ساڑھے پانچ گھنٹے سے زیادہ بات کی ، پارلیمنٹ میں حاضری اور بولنے کے حوالے سے دونوں میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔قیصر احمد نے 67 سیشنز (42 فیصد) میں شرکت کی ، وہ تیسرے نمبر پر ہیں۔رانا تنویر حسین، میاں ریاض حسین پیرزادہ،علی پرویز ملک، حاضری کی درجہ بندی میں چوتھی پوزیشن پر ہیں ، انہوں نے 66 (42 فیصد) سیشنز میں شرکت کی اور ان میں سے ہر ایک نے بالترتیب 1 گھنٹہ 44 منٹ ، 1 گھنٹہ 1 منٹ اور 1 گھنٹہ 31 منٹ بات کی۔بولنے کے وقت کے لحاظ سے عطا اللہ تارڑ تیسرے نمبر پر ہیں۔ انہوں نے تقریباً ساڑھے چار گھنٹوں تک بات کی لیکن 63 ، (40 فیصد ) نشستوں میں شرکت کی ، جو حاضری کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر آئے ۔وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب ہیں جنہوں نے تقریبا ً 4 گھنٹے بات کی ، لیکن صرف 35 ، (22 فیصد ) نشستوں میں شرکت کی۔ بولنے کے حوالے سے پانچویں نمبر پر سینیٹر محمد اسحاق ڈار ، جنہوں نے صرف 32 (20 فیصد )نشستوں میں شرکت کے باوجود 2 گھنٹے اور 45 منٹ تک بات کی۔

Back to top button