احتجاج کی ناکامی حکومت کی بجائے فوج کی کامیابی کیوں ہے ؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ 24 نومبر کو اسلام آباد میں عمران خان کی جانب سے دی گئی احتجاج کی کال تو ناکام رہی لیکن کامیابی حکومت کو نہیں بلکہ فوجی اسٹیبلشمینٹ کو ملی۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 24 نومبر کے احتجاج کے حوالے سے ریاست اور عمران دونوں اپنی اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں، دونوں کے پاس اپنے اپنے حامیوں کی تسکین کیلئے وزنی دلائل بھی موجود ہیں، ریاست کہتی ہے کہ فائنل احتجاج مکمل طور پر ناکام ہوگیا، تحریک انصاف والے کہتے ہیں کہ کنٹینرز لگا کر راستے بند کرنے سے حکومت ہار گئی۔ لیکن میری رائے میں 24 نومبر کو ریاست بھی جیت گئی اور تحریک انصاف بھی۔ ہاں البتہ شکست پاکستانیوں کی ہوئی ہے جنہیں آئے روز بحرانوں کا سامنا ہے اور سیاسی اور۔معاشی استحکام قائم نہیں ہو پا رہا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستان میں آج کل جوکچھ بھی چل رہا ہے اس میں مجموعی طور پر سیاست ہار رہی ہے اور فوج جیت رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا کسی تصفیے پر نہ پہنچنا اور مصالحت کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ ہونے کے سبب سیاستدانوں کا طاقت کے ایوانوں میں کردار بہت ہی کمزور ہوگیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ ریاستی اداروں نے سیاستدانوں سے فیصلے کروانے کی بجائے فیصلوں کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ شہباز شریف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور وزیر اعظم ہیں، کیا 24 نومبر کے احتجاج کو روکنے کی منصوبہ بندی انہوں نے کی؟کیا فیصلہ سازی کو لیڈ انہوں نے کیا؟ کیا صورتحال کی لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ وہ کر رہے تھے؟ میرا نہیں خیال کہ سرسری بریفنگ کے علاوہ ان معاملات سے شہباز شریف کا کوئی سروکار بھی ہے، گویا فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں اور کوئی اور کر رہا ہے؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جیل میں بیٹھے کپتان اور مسند اقتدار پر بیٹھے شہباز شریف آہستہ آہستہ کمزور ہوئے۔ عمران خان کے زمانے میں ہی اختیارات اسٹیبلشمنٹ کے پاس چلے گئے تھے اب بھی وہی حال ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اختیارات بڑھ گئے ہیں نونیوں، پیپلیوں اور انصافیوں نے اقتدا ر کے لالچ میں سویلین بالادستی کو سرنڈر کردیا ہے انکی بڑھتی ہوئی کمزوریاں سویلین سیٹ اپ کو مزید کمزور کر رہی ہیں۔
سہیل وڑائچ عمران خان کی جانب سے دی گئی احتجاج کی کال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جوں جوں 24 نومبر کی تاریخ قریب آتی گئی، سیاسی ہیجان بڑھتا چلا گیا، مگر پاکستانی سٹاک مارکیٹ پر اس کا الٹا اثر ہوا اور وہ چڑھتی گئی، حالانکہ سٹاک مارکیٹ اتنی حساس اور نرم و نازک ہے کہ پٹاخہ بھی پھوٹے تو یہ کریش ہو جاتی ہے۔ گویا کاروباری طبقے کو اس کال سے کوئی سروکار نہ تھا وہ لاتعلق تھا بلکہ ردعمل میں سرمایہ کار بڑھ چڑھ کر سٹاک خرید رہے تھے۔
سینئیر صحافی کا کہنا یے کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کاروباری طبقے کی ساری امیدیں فوج اور اسکے سربراہ جنرل عاصم منیر سے وابستہ ہو چکی ہیں۔ بزنس مین سیاستدانوں سے کافی حد تک مایوس ہو چکے ہیں جسکی بڑی وجہ سیاست دانوں کی بے اختیاری اور عدم توجہی ہے۔ الیکشن 24 سے پہلے ایسا نہیں تھا، تب کاروباری طبقے کی امیدیں سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھیں ۔پنجاب کے دس بڑے صنعتکاروں نے الیکشن 2024 سے پہلے ایک کنسورشیم بنایا جس کے ہر ممبر نے دس کروڑ روپے بطور حصہ ڈالے اور گروپ کی شکل میں نواز شریف کو الیکشن کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم پیش کی۔ اس کنسورشیم میں زیادہ تر نون کے حامی تھے مگر وہ بھی تھے جنہیں یہ امید تھی کہ نون لیگ آئے گی تو معیشت بہتر ہوگی اور بڑے بڑے فیصلے ہونگے۔
لیکن سہیل وڑائچ کے مطابق اب کاروباری طبقہ نون کی طرف نہیں بلکہ فوج کی طرف متوجہ ہے۔جنرل عاصم منیر خود دو بار کراچی کے کاروباری طبقے سے مل چکے ہیں۔ آرمی چیف لاہور کے بزنس مینوں سے بھی مل چکے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ کام جو وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے کرنے کے ہیں وہ آرمی چیف کر رہے ہیں۔مجموعی طورپر اہل سیاست اپنی کوتاہیوں، غلطیوں اور کچھ فوج کی مہربانیوں سے تیزی سے غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ 24 نومبر کے احتجاج کی ناکامی حکومت کی نہیں بلکہ فوج کی کامیابی ہے کیونکہ اہل سیاست ہارے ہیں اور مذید کمزور ہوئے ہیں۔ فوج تو متحد اور یکجا ہے جب کہ اہل سیاست بکھرے ہوئے اور منتشر ہیں، ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت اس وقت ایک دوسرے کی جانی دشمن ہیں، ایسے میں بالادستی سویلینز کی ہو گی یا فوج کی؟ ایسے میں معیشت کو حکومت چلائے گی یا فوج؟
سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ 24 نومبر کے احتجاج کو راستے بند کر کے روکنا ان کی کامیابی ہے۔ مگر تلخ حقائق ان مفروضوں سے بالکل مختلف ہیں، سچ تو یہ ہے کہ بار بار کی احتجاجی کالز کے بعد فائنل کال کی ناکامی سے کپتان کی بارگیننگ پوزیشن بھی کمزور ہوئی یے۔ پی ٹی آئی کی سٹریٹ پاور کا خوف اب فوج اور حکومت کو تنگ نہیں کر رہا ،نہ کوئی بیرونی دبائو آ رہا ہے اور نہ اندرونی دبائو بن رہا ہے۔ عدلیہ سے امید، فوج کے اندر سے اختلافات، یوتھیوں کے عوامی انقلاب لانے کے سارے خواب چکنا چُور ہو چکے ہیں۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کے باوجود ان کے احتجاج کی بار بار ناکامی ان کے سیاسی زوال کی نشاندہی کر رہی یے۔
پی ٹی آئی رہنما حامد خان نے 30 نومبر کو پنجاب بھر سے وکلا تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا
سہیل وڑائچ کے بقول بے وقت کی احتجاجی کال کی ذمہ داری اپنے سیاسی ساتھیوں کی بجائے گھر کی عورتوں کو سونپنے سے اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ تحریک انصاف میں دانشمندانہ فیصلوں کا شدید فقدان ہے۔ عمران خان کو دو سال کی مسلسل لڑائیوں کے نتیجے میں صفر کامیابی سے کچھ تو سبق سیکھنا چاہیے۔ ریاست کی طاقت سے ٹکرا کر انقلاب نہیں لایا جاتا۔انقلاب کے فارمولے سے فوج اور ریاست کے علاوہ پاکستان کو بھی شدید نقصان کا اندیشہ یے، اس لئے مسئلے کا حل مصالحت کا راستہ نکالنا ہے۔ جتنی جلدی مذاکرات کے راستے پر چلا جائے گا، ملک کیلئے اتنا ہی اچھا ہو گا۔ دیر پا استحکام تبھی پیدا ہوگا جب سیاسی تصفیہ ہوگا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں مانا کہ فوج ریاست کا اہم ترین ستون ہے مگر سیاست میں مسلسل در اندازی اور حکمرانی پر کنٹرول نے اسے متنازع ترین بنا دیا ہے۔ حکمرانی سیاست دانوں کا حق ہے، وہ برے ہوں یا اچھے، کرپٹ ہوں یا ایماندار، آئین پاکستان کا تقاضا یہی ہے کہ وہی حکومت چلائیں گے۔ دوسری جانب سپاہی اچھا ہو یا برا، دلیر ہو یا بزدل، لڑنا اسے ہی آتا ہے۔ لیکن پاکستان کا مسئلہ ہی یہی ہے کہ یہاں ہر کوئی مکمل اختیار اور اقتدار چاہتا ہے حالانکہ پارلیمانی جمہوریت میں اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ ہر ادارے اور ہر شخص کو آئینی حدود میں رہنا چاہیے اور ہر کسی کو اس کے آئینی حقوق ملنے چاہئیں۔ 24 نومبر تو گزر گیا مگر اہل سیاست پر یہ بوجھ چھوڑ گیا ہے کہ وہ نہ عوام کے اعتماد پر پورے اتریے اور نہ ہی عقلمند ترین ہونے کے باوجود مذاکرات کر پائے۔ ہماری سب سے بڑی اور اجتماعی ناکامی یہی ہے۔