جھوٹ کے پیغمبر گوئبلز کی بدروح پاکستان میں کیوں بھٹک رہی ہے؟

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں جھوٹ کے پیغمبر کی حیثیت سے معروف ہٹلر کے گوئبلز نامی وزیر برائے پروپیگنڈہ کو کئی دہائیوں تک بھٹکنے کے بعد پاکستان میں گوشہ عافیت مل گیا ہے جہاں اسے تحریک انصاف کے جھوٹوں کا ساتھ نصیب ہو گیا ہے۔ گوئبلز کا فلسفہ یہ تھا کہ جھوٹ کو اتنی کثرت سے دہرائیں کہ وہ سچ لگنے لگے۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف بھی اسی فلسفے پر چلتی ہے۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اسلام اباد میں اپنے فائنل احتجاج کی ناکامی کو 278 لاشیں گرانے کے بیہودہ الزام سے دھونے کی کوشش میں تحریک انصاف والے گوئبلز سے بھی دو قدم اگے نکل گئے۔ انکا کہنا یے کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی پارٹی نہیں، بلکہ ایک ’’فرقہ‘‘ ہے جس کے سربراہ کو ’دیوتا‘ یا ’اوتار‘ کا درجہ حاصل ہے۔ اس طرح کے ’’فرقوں‘‘ اور ’’اوتاروں‘‘ کے انجام کا آخری سکرپٹ تاریخ خود لکھتی ہے اور خود ہی عملی جامہ پہناتی ہے۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ گئے زمانوں میں ’’ہٹلر‘‘‘ نام کا ایک اوتار ہوا کرتا تھا۔ 12 برس کی حکمرانی، جذباتیت اور نسلی عصبیت کی آگ بھڑکاتے ہوئے وہ دنیا سے ٹکرا گیا۔ جب اس کا نتیجہ جرمنی کی جنگ میں شکست اور بربادی کی شکل میں نکلا تو ہٹلر نے اپنے زیر زمین مورچے میں اپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کرلی۔ لیکن اس سے پہلے جھوٹ، فریب اور غلط بیانی کی علامت بن جانے والے اپنے وزیر برائے پروپگینڈا گوئبلز کو ہٹلر نے اپنا جانشین نامزد کردیا۔ گوئبلز صرف ایک دِن جرمنی کا چانسلر رہا۔ ہٹلر کی خودکشی کے اگلے دن، اُس نے بھی اپنی بیوی کے ساتھ مل کر پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو زہر دیا اور پھر دونوں میاں بیوی نے بھی خودکشی کرلی۔
سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ ہٹلر کے پاس شاید اپنے فن میں طاق ایک ہی گوئبلز تھا لیکن پی ٹی آئی کو جدید ٹیکنالوجی پر گرفت رکھنے، جھوٹ تراشنے اور دروغ گوئی کے ہُنر میں ماہر ہزاروں لاکھوں ’گوئبلز‘ کی خدمات حاصل ہیں جو صرف پاکستان ہی نہیں، دنیا کے ہر ملک میں اپنا معجزۂِ فن دکھا رہے ہیں۔ چنانچہ گوئبلز نے سوشل میڈیا پر 26 نومبر کو پی ٹی آئی کے 278 ورکرز کی لاشیں گرنے کا جھوٹ پھیلانا شروع کیا۔ چنانچہ یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ دنیا بھر میں بھٹکنے کے بعد گوئبلز کی بے چین بدروح کو پاکستان میں آسودگی بخش گوشہ عافیت مل گیا ہے۔
عرفان صدیقی بتاتے ہیں کہ عمران خان 2018 کے دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے اقتدار میں آئے جس کے بارے میں جنرل باجوہ نے، مولانا فضل الرحمٰن کو بتایا تھا ’’ جی ہاں! ہم اُسے جتانا چاہتے تھے لیکن مصالحہ کچھ زیادہ لگ گیا۔‘‘ عمران نے پونے چار سال کی حکومت کے دوران میں پاکستان کو ہمہ پہلو زوال وانحطاط کے گہرے گڑھے میں جھونک دیا جس سے نکلنے کے لئے جانے کب تک پاکستان کو جتن کرنا پڑیں گے۔ اپریل 2022ءکے بعد خان کی قیادت میں پی ٹی آئی نے نئے سفر کا آغاز ایک سائفر سے کیا۔ یہ سائفر امریکی نائب وزیرخارجہ ڈونلڈ لو اور ہمارے سفیر کے درمیان گفتگو کا خلاصہ تھا۔ عمران نے اپنے نورتنوں سے مل کر سائفر سے کھیلنے کا منصوبہ بنایا۔ امریکہ کے ساتھ مسلح افواج کی قیادت کو بھی گھسیٹ لیا۔ اُنہیں میر جعفر اور میر صادق قرار دیا، کچھ حاصل نہ ہوا۔ پھر جنرل عاصم منیر کا راستہ روکنے کے لئے مہم چلائی ۔ یہ مہم بھی ناکام رہی۔ عاصم منیر چیف آف آرمی اسٹاف بن گئے تو ان کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے کے لئے بھی کوئی نہ کوئی سرکس لگاتے رہے۔ سب اکارت گئے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اس کے بعد عمران خان نے فوج کے اندر نفاق اور بغاوت پھیلانے کیلئے 9 مئی کی سازش کی۔ اڑھائی سو کے لگ بھگ دفاعی تنصیبات پر حملے اور شہدا کے مزار جلانے کے بعد، اس معرکہ آرائی کو پہلے اپنے سر کی کلغی بنا کر بولے ’’جب مجھے رینجرز پکڑیں گے تو میرے کارکن اور کہاں حملے کریں گے؟‘‘ لیکن بعد میں ڈنڈا گھوما تو موصوف مکر گئے اور اس لایعنی دلیل تک آن پہنچے کہ یہ تو فوج کا اپنا ’’فالس فلیگ آپریشن‘‘ تھا جو ہمارے سر تھوپ دیاگیا۔ خان صاح۔ جیل گئے تو فتنہ ساماں جلسے جلوسوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ 24 نومبرکو خیبرپختون خوا حکومت کی طرف سے یہ اسلام آباد پر تیسرا حملہ تھا جسے ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیاگیا۔
پی ٹی آئی ڈی چوک احتجاج : اسلام آباد ہائی کورٹ حکومت اور انتظامیہ پر برہم
عرفان صدیقی کے مطابق بشریٰ بی بی نے حکم جاری کیا تھا کہ پی ٹی آئی کا ہر ایم این اے دس ہزار افراد لے کے آئے اور صوبائی اسمبلی کا ہر رُکن پانچ ہزار بندے کائے گا۔ اسلام آباد میں بیٹھنے والا ہجوم پندرہ سے بیس ہزار بتایاجاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے اپنے حلقے اسے تیس ہزار بتاتے ہیں۔ اگر 30 ہزار بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف تین ایم این اے یہ نفری لے کے آئے تھے۔ تا ہم 26 نومبر کی رات تب نئی سیاسی تاریخ لکھی گئی جب مظاہرین کے خلاف اپریشن شروع ہوتے ہی بشری بی بی اور علی امین گنڈاپور سمیت تمام انقلابی جوتیاں اٹھا کر ڈی چوک سے فرار ہو گئے۔