فوج اور شہباز شریف کا ہنی مون عمران خان سے مشروط کیوں ہے ؟

وزیراعظم شہباز شریف اپنے دوسرے دور اقتدار کے دوران ایک بار پھر طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب تو رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شہباز حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا ہنی مون تب تک ہی چلے گا جب تک عمران خان کا جانب سے مزاحمت جاری رہے گی، انکا کہنا ہے کہ جیسے ہی بانی پی ٹی آئی کی مزاحمت دم توڑے گی، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا ہنی مون پیریڈ بھی ختم ہو جائے گا اور دونوں ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 2024 کے الیکشن کے بعد سے فوج اور شہباز حکومت دونوں اکٹھے ہیں چونکہ عمران خان انکا مشترکہ دشمن ہے، انکا کہنا ہے کہ جیسے ہی یہ مشترکہ دشمن کمزور پڑے گا یا لمبی سزا کی صورت میں فارغ ہو گا، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے تعلقات کی نوعیت بھی تبدیل ہونا شروع ہو جائے گی، جیسا کہ ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے۔ عمران کے اپنے دور حکومت میں بھی پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی قیادت کو نیب کے ذریعے دیوار کے ساتھ لگائے جانے کے بعد خان نے بطور وزیراعظم جنرل باجوہ کی اسٹیبلشمنٹ پر حاوی ہونے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ تاہم ان کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات تب خراب ہو گئے جب انہوں نے ندیم انجم کو آئی ایس آئی کا نیا چیف بنانے کی مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو اقتدار میں لانے والے جنرل قمر باجوہ ان سے نالاں ہو گئے اور خان صاحب کو ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک شہباز شریف اپنی ایک سالہ حکومتی کارکردگی سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو مطمئن کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ شہباز شریف ایک اچھے بچے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی انگلی پکڑ کر چل رہے ہیں اور اسے ناراض ہونے کا موقع نہیں دیتے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق نواز شریف کی بجائے شہباز کو وزیراعظم بنانے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ فوج اور حکومت اپنے مشترکہ دشمن عمران خان کے خلاف یکسوئی کے ساتھ چلتے رہیں۔ موجودہ منقسم سیاسی ماحول اور معاشی چیلنجز کے دور میں شہباز شریف کو فوجی اسٹیبلشمنٹ اب تک پاکستان کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے کیلئے بہترین انتخاب سمجھتی ہے۔ سینیئر صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے کہ فوجی اسٹیبشلمنٹ کا شہباز شریف پر بھروسہ یکطرفہ نہیں۔ شہباز بطور وزیر اعظم آرمی چیف جنرک عاصم منیر کی پیشہ ورانہ مہارت، نظم و ضبط اور ویژن کی عوامی اور نجی سطح پر کھل کر تعریف کرتے ہیں۔
کئی مرتبہ، وزیراعظم نے قوم کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں حکومت کی ’’غیر متزلزل حمایت‘‘ کا کریڈٹ آرمی چیف اور فوج کو دیا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم مسلسل آرمی چیف کی تعریف کرتے ہیں لیکن جنرل عاصم منیر بھی فوجی حلقوں میں شہباز شریف کے بحیثیت وزیراعظم کارکردگی کی تعریف کرتے ہیں۔ انصار عباسی کے مطابق باہمی احترام اور ستائش کا یہ غیر معمولی مظہر ایک ایسے نظام کو مستحکم رکھے ہوئے ہے جس میں تاریخی طور پر اہم طاقتور حلقے ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے نظر نہیں آتے۔
پنجاب کی ترقی دو صوبائی حکومتوں کے اعصاب پر سوار ہوچکی ہے : عظمیٰ بخاری
کچھ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ شہباز شریف شاید اسٹیبلشمنٹ کی امیدوں پر پورا نہیں اترے، لیکن حکومتی ذرائع ایسے دعووں کی سختی تردید کرتے ہیں۔ عموماً شہبازشریف کو ایک ایسے شخص کے طور پر جانا جاتا ہے جو کام کرکے دکھاتا ہے، شہباز شریف کو اسٹیبلشمنٹ اب سے نہیں بلکہ جنرل مشرف کے دور سے پسند کرتی چلی آئی ہے۔ جب مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ کیا تھا تو یہ خبریں سامنے ائی تھیں کہ انہوں نے شہباز شریف کو اپنے بھائی کی جگہ وزارت عظمی سنبھالنے کی پیشکش کی تھی لیکن انہوں نے بڑے بھائی کے خلاف جانے سے انکار کر دیا۔ شہباز شریف کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل پرویز مشرف بھی بہترین انتظامی کارکردگی کی وجہ سے شہباز کے معترف تھے۔ فوجی اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ سے یہ اعتماد رہا ہے کہ اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی طرح شہباز شریف کبھی فوجی قیادت کے ساتھ پنگا نہیں ڈالیں گے، اور اب تک انہوں نے اس اعتماد کو توڑنے کی غلطی نہیں کی، لیکن اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور شہباز حکومت کا مشترکہ دشمن عمران خان ابھی تک سخت مزاحمت کر رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عمران کی مزاحمت ختم ہونے کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ اور شہباز شریف کا ہنی مون یونہی چلتا رہے گا یا نہیں؟