پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل لٹکا کیوں رہی ہے؟

حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین منتوں اور ترلوں کے بعد شروع ہونے والے مذاکرات کی کامیابی کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔اعتماد سازی کے فقدان، بیان بازی و الزام تراشی، ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی کال اور سول نافرمانی کی دھمکیوں کی وجہ سے تاحال مذاکرات میں کوئی بریک تھرو نہیں ہو سکا۔ مبصرین کے مطابق حکومت اپوزیشن مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں سیاسی درجہ حرارت میں کمی تو آئی ہے مگر مذاکراتی عمل کے ٹائم فریم اور نتیجہ خیز ہونے پر سوالیہ نشان تاحال برقرار ہے۔ باہمی اعتماد کے فقدان کی وجہ سے فریقین مذاکرات کے حوالے سے کوئی حتمی بات کہنے کیلئے تیار نہیں، پی ٹی آئی اور حکومت یعنی دونوں فریق بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ کسی کو بھی مذاکراتی عمل جلد انجام تک پہنچانے کی جلدی نہیں ہے۔ لگتا ہے دونوں فریق صرف وقت کو ٹالنے کیلئے مذاکرات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں ۔اسی لئے اب تک ہونے والی دو نشستوں میں کوئی بڑا بریک تھرو سامنے نہیں آ سکا۔

سینئر صحافی سلمان غنی کے مطابق حالیہ مذاکراتی اجلاس میں پی ٹی آئی والے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور دیگر پارٹی رہنماؤں کی رہائی کے ساتھ9مئی اور26نومبر کے واقعات پر کمیشن کے قیام پر زور دیتے نظر آئے تاہم انھوں نے اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ باضابطہ دینے سے گریز کیا،ان کاکہنا تھا کہ باضابطہ چارٹر آف ڈیمانڈ دینےکیلئے بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنی ہے اس کیلئے حکومت سہولت فراہم کرے ۔ تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کو باضابطہ چارٹر آف ڈیمانڈ دینے سے گریز کیوں کررہی ہے اور کیا وجہ ہے کہ مذاکراتی عمل میں فریقین میں سے کسی کوبھی مذاکراتی عمل۔پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جلدی نہیں کہ اور کیا مذاکراتی عمل نتیجہ خیز بن پائے گا؟

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھاکہ جہاں تک پی ٹی آئی کی جانب سے چارٹر آف ڈیمانڈ میں تاخیر کاسوال ہے تو اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی باضابطہ طور پر ایسی کوئی تحریر حکومت کے سامنے پیش نہیں کرنا چاہتی کہ جس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کا مطالبہ شامل ہو کیونکہ اس سے اس بیانیہ کی نفی ہوجائے گی کہ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔۔۔ جس پر ان کی مقبولیت اور سیاسی کردار کا دارومدار ہے ،وہ اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ جب تک بانی پی ٹی آئی رہا نہیں ہوجاتے سیاسی محاذ پر تلخی جاری رہے گی لہٰذا وہ ان کی غیر اعلانیہ طور پر بنی گالہ منتقلی کا مطالبہ بھی کرتے نظر آتے ہیں اور دعوی ٰکرتے ہیں کہ انہیں اس کی آفر بھی ہے جبکہ حکومت اس امرکی تردید کرتی ہے ۔ سلمان غنی کے بقول جہاں تک بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات پر چارٹرآف ڈیمانڈ کا انحصار ہے تو لگتا یوں ہے کہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی بجائے پی ٹی آئی کے کارکنوں کی رہائی کو بنیاد بناتے ہوئے حکومت پر دباؤ ڈالا جائے گا ،دوسرا مطالبہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ہے لیکن لگتاہے پی ٹی آئی خودکو ان دو مطالبات تک محدود نہیں رکھ سکے گی ان مطالبات میں آنے والے دنوں میں مزید اضافہ ہو گا

سلمان غنی کے مطابق پی ٹی آئی اور حکومت کے اس مذاکراتی عمل کا سیاسی محاذ پر اتنا فائدہ ضرور ہوا ہے کہ فریقین میں برف پگھلی ہے ،سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئی ہے ایک دوسرے کا موقف سننے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا ہے اور ایک عام تاثر یہ بھی بن رہا ہے کہ مذاکراتی عمل فریقین کی اندرونی تحریک کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بین الاقوامی حالات اور خصوصاً امریکہ سمیت یورپی یونین کے پاکستان کے بعض معاملات پر آنے والے تحفظات کے تناظر میں ہے ۔یہ سارا سلسلہ26ویں آئینی ترمیم کے بعد شروع ہوا ،تاہم فریقین مذاکرات میں جلدی بھی نہیں دکھارہے جس کا مطلب ہے کہ مستقل قریب میں جاری مذاکراتی عمل میں کسی بڑے بریک تھرو کا امکان نہیں

9 مئی کے مجرموں کو معافی دے کر اسٹیبلشمنٹ غلطی کر بیٹھی

بعض دیگر مبصرین کے مطابق بنیادی طورپر پی ٹی آئی کے چار مطالبات تھے ،8 فروری کے الیکشن کو نہیں مانتے تھے ،26ویں ترمیم کی واپسی کا مطالبہ تھا، اب ان دو کو چھوڑ دیا ،اب پی ٹی آئی کے دو مطالبات ہیں، بانی پی ٹی آئی سمیت سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9مئی،26 نومبرکے عدالتی کمیشن کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تاہم حقائق اسی وقت واضح ہونگے جب پی ٹی آئی قیادت باضابطہ طور پر چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت کے حوالے کرے گی۔ ناقدین کے مطابق یہ جو مذاکرات شروع ہوئے ہیں ان کا اختتام ہونا ہے ،اور اس کے درمیان جو فیصلے ہونے ہیں، اس میں موجودہ حکومت کا اختیار نہیں ہے ،حکومت کو اشارہ ملا ہو گا ، اس وجہ سے پی ٹی آئی سے مذاکرات شروع کئے ،فوج نے کچھ کارکنوں کی سزائیں معاف کی ہیں، مذاکرات کا ایک پورا پس منظر ہے ،کیمروں کے پیچھے اس وقت بہت کچھ ہورہا ہے ۔ اس لئے مذاکراتی عمل کو اتنا ہلکا نہیں لینا چاہیے۔دوسری طرف 9مئی کے 19مجرموں کی سزا معافی کو مفاہمتی عمل سے جوڑا جارہاہے ،کچھ معتبرحلقوں کاکہناہے کہ 20جنوری سے پہلے اچھی خبریں آسکتی ہیں ،یہ وہ وقت ہے جب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال رہے ہونگے تاہم عالمی اور علاقائی صورتحال پرخصوصی توجہ رکھنے والی شخصیات کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کو اتنی فرصت نہیں ہوگی کہ وہ پاکستان کے حالات یہاں کی کچھ شخصیات کے حوالہ سے کچھ کہنے کا سوچے۔ اس لئے ٹرمپ سے عمران خان کی رہائی کی امیدیں لگائے بیٹھے پی ٹی آئی کارکنان کو مایوسی ہی ہو گی۔

Back to top button