عمران کی سول نافرمانی کی کال بھی ناکام ہونے کا خدشہ کیوں؟
24 نومبر کے احتجاج کی بدترین ناکامی اور عوام کی جانب سے ڈو آر ڈائی کی پالیسی مسترد کرنے کے باوجود عمران خان اپنی کوتاہیوں سے سبق سیکھنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان نے مطالبات پورے نہ کرنے پر 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے تاہم پارٹی میں انتشار اور گروپنگ، حکومت اور مقتدرہ کے جارحانہ رد عمل اور عوامی عدم دلچسپی کی وجہ سے سول نافرمانی تحریک کا انجام بھی فائنل کال سے مختلف ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ مبصرین کے مطابق فائنل کال کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی پر شکنجہ مزید کسنا شروع ہو چکا ہے جبکہ عمران خان نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی انتشاری سوچ پر ہی عمل پیرا رہے تو ان پر مکمل کراس بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ یا تحریک انصاف پر مکمل پابندی بعید از قیاس نہیں۔
خیال رہے کہ ڈی چوک احتجاج کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف میں دراڑیں اور بھی واضح ہوگئی ہیں حتیٰ کہ بانی پی ٹی آئی نے پارٹی قیادت کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اپنا وزن اپنی اہلیہ پنکی پیرنی کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور پارٹی قیادت کو کھری کھری سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بشری بی بی نے جو کچھ کیا وہ ان کی ہدایات کے مطابق کیا۔
معلوم ہوا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان پارٹی کی موجودہ صورتحال پر سخت ناراض ہیں، جس کا انھوں پارٹی قیادت سے ملاقات کے دوران کھل کر اظہار بھی کیا دوران ملاقات عمران خان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب کہا تھا کہ احتجاج سنگجانی میں ہونا ہے تو ڈی چوک کیوں لے کر گئے؟ احتجاج کے معاملے پر متحدہ محاذ کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ بشریٰ بی بی کو ڈی چوک نہیں جانا چاہئے تھا، اگر انہیں کچھ ہو جاتا تو اس کا ذمہ دار کون ہوتا؟ بشریٰ بی بی کو اسلام آباد انتظامیہ کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑا گیا؟
بانی پی ٹی آئی نے پنجاب کی لیڈرشپ پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ پنجاب کی قیادت بار بار دھوکہ کیوں دے رہی ہے؟ جب بھی احتجاج جیسی صورتحال آتی ہے پنجاب کی قیادت کا رویہ مسلسل تشویشناک ہے، انہوں نے پارٹی میں گروپنگ پر بھی پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ اگر پارٹی میں لڑائی جاری رہی تو کچھ لوگوں کو باہر کرنا ہوگا۔اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ سابق وزیراعظم پارٹی چلانے اور فیصلہ سازی کے معاملے پر تحریک انصاف کی قیادت سے ناخوش ہیں، بانی پی ٹی آئی نے ڈی چوک پر ہونے والی مبینہ ہلاکتوں کے معاملے کو ڈیل کرنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا، ڈی چوک میں ہونے والے واقعے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں نے ایسے متضاد اور غیر حقیقی بیانات داغے کہ ان کا اصل مدعا بھی متنازع ہوگیا۔ پارٹی میں انتشار اور تقسیم کے دوران اب عمران خان کا بغیر کسی مشاورت کے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان ان کی غیر سیاسی سوچ کا عکاس دکھائی دیتا ہے۔
مبصرین کے مطابق یہ بات بھی درست ہے کہ ڈی چوک پر آنا پاکستان تحریک انصاف کا بڑا بلنڈر تھا، اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈی چوک پر آنے کے بعد معلوم ہوا کہ پاکستان تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے پاس تو کوئی پلان تھا ہی نہیں، انہوں نے جو پریشر لوگوں کی بڑی تعداد کے ذریعے اٹک کے پل سے بنانا شروع کیا تھا اسے سیاسی طور پر کیش کرانے کی بجائے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں کو مشکلات کی ایک اور دلدل میں دھکیل دیا، صرف یہی نہیں بلکہ اگر لوگوں کی بڑی تعداد کے ساتھ سنگجانی میں دھرنہ دے دیتے تو حکومت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار تھی۔
یہی وہ موقع تھا جب پاکستان تحریک انصاف حکومت کو بات چیت کی میز پر لا کر اپنا مؤقف سامنے رکھ سکتی تھی مگر ریڈ لائن کراس کر کے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے یہ موقع گنوا دیا، کارکن بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈا پور کے رویے سے بھی بہت مایوس ہوئے، کارکنوں کو مشکل میں ڈال کر قیادت کا خود مارگلہ کی پہاڑیوں کے راستے خیبر پختونخوا پہنچ جانا ان کیلئے کسی سبق سے کم نہیں تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق احتجاج کی ناکامی کے بعد پاکستان تحریک انصاف بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کارکنوں پر گولیاں برسائی گئیں اور پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے پہلے سیکڑوں کارکنوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا جو سچ ثابت نہ ہوا، اس کے بعد تحریک انصاف اب اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ کر 12 افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہی ہے، خود بانی پی ٹی آئی نے پارٹی رہنماؤں سے بات چیت میں برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی قیادت نے اس معاملے کو مس ہینڈل کیا۔
پی ٹی آئی کے سابق میڈیا کوآرڈینیٹر نے نواز شریف سے معافی مانگ لی
مبصرین کے مطابق کئی روز گزرنے کے باوجود ملکی سیاست میں ڈی چوک کا احتجاج آج بھی زیر بحث ہے جہاں پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا پر اپنے ساتھ ہونے والے سلوک پر نیا بیانیہ بنا رہی ہے وہیں حکومت صورتحال پر اپنا مؤقف پیش کر رہی ہے، اگرچہ پاکستان تحریک انصاف سول نافرمانی کے نام پر نئی کال کے دعوے کر رہی ہے مگر زمینی صورتحال بتا رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو دوبارہ کوئی عوام تحریک چلانے یااسلام آباد کا رخ کرنے میں ابھی وقت لگے گا تاہم اگر جلد بازی میں عمران خان نے اب کوئی ایڈونچر کرنے کی کوشش ہی تو اسے نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔