8 فروری کو PTI کا حکومت مخالف احتجاج کیوں نا کام ہوگا ؟

حکومت سے مذاکراتی عمل کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی نے ایک بار پھر دھمکی آمیز بیانیہ اپناتے ہوئے شرپسندانہ سیاسی حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور 8 فروری کو ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔ تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی میں گروپنگ، اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات اور حکومتی جارحانہ ردعمل کے بعد یوتھیوں کے 8 فروری کے احتجاج کی ناکامی یقینی ہے۔مبصرین کے مطابق عمران خان اپنے سیاسی کیریئرکے آغاز سے ہی کبھی بھی مذاکرات کی جانب بڑھے نہ ہی وہ حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، پی ٹی آئی کی جانب سے عمران خان کو این آر او دلوانے کیلئے مذاکراتی عمل کا آغاز کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی قسم کا این آر او یا ڈیل دینے سے صاف انکار کے بعد پی ٹی آئی مذاکراتی عمل سے پیچھے ہٹ گئی جس کے بعد حکومت نے بھی جارحانہ جواب دیتے ہوئے مذاکرات ختم کر دیے ہیں۔تاہم یہاں سوال۔پیدا ہوتا ہے کہ مذاکرات کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پاکستانی سیاست بلخصوص پی ٹی آئی کی سیاست اب کسی کروٹ بیٹھے گی؟ مذاکرات کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف کے پاس کون کون سے آپشنز موجود ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق پی ٹی آئی کے لیے فروری کے مہینے میں کوئی بھی مذاکرات فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے اس لیے انہوں نے مزاحمتی سیاست کی طرف واپس جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماجد نظامی کے بقول فروری میں عام انتخابات کو ایک برس مکمل ہو رہے ہیں جبکہ پی ٹی آئی اپنے بیانیے میں ان انتخابات کو دھاندلی زدہ الیکشن قرار دے چکی ہے۔ اب بقول پی ٹی آئی، دھاندلی زدہ الیکشن کے ذریعے بننے والی حکومت کی پہلی برسی ہے اور اس موقع پر بطور جماعت وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ یہ تاثر جائے کہ وہ حکومت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔

ماجد نظامی کا مزیدکہنا تھا کہ اس صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے مذاکرات کو کچھ عرصہ کے لیے روک کر احتجاج کا رخ کیا ہے۔ اس کے لیے پی ٹی آئی تنظیم میں کچھ تبدیلیاں بھی لے آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فروری میں مذاکرات کی طرف کوئی پیش قدمی نظر نہیں آرہی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت حکومت بھی اس معاملے پر کوئی کمزوری نہیں دکھانا چاہتی اس لیے انہوں نے بھی سخت فیصلوں کا تاثر دیتے ہوئے مذاکرات کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ حالانکہ اس سے قبل بھی یہی تاثر تھا کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو شاید حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کے لیے زیادہ کچھ نہ ہو۔حکومت نے بھی جب صورت حال بھانپی تو دفاع کے بجائے جارحانہ پوزیشن اپنا لی، لیکن امید کی جا رہی ہے کہ یہ معاملہ کچھ تعطل کے بعد دوبارہ شروع ہو سکتا ہے۔

بعض دیگر مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی ہمیشہ مذاکرات سے انکاری رہی ہے تاہم اس دفعہ ایسا پہلی بار ہوا کہ تحریک انصاف مذاکرات کے لیے خود حکومت کے پاس پہنچی۔تاہم اب حکومت سے مذاکرات ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی مشکل میں پڑ چکی ہے۔ کیونکہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف نے بہت سی چیزیں کر کے دیکھ لی ہیں، اس میں سول نافرمانی کی تحریک سے لے کر بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر بھیجنے سے روکنا بھی شامل ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ اوورسیز پاکستانی کسی سیاستدان یا حکومت کو نہیں بلکہ اپنے خاندان کی کفالت کے لیے پیسہ بھیجتے ہیں جو وہ کبھی بھیجنا بند نہیں کرینگے۔ اس طرح عمران خان کو اپنی اس کال میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی سول نا فرمانی کی تحریک کے دوسرے مرحلے میں بجلی کے بل جمع نہ کروانا شامل ہے لیکن لوگ بل جمع نہ کروانے پر میٹر کٹ جانے کے ڈر سے ایسا بھی نہیں کریں گے، اس لیے اس وقت پی ٹی آئی مکمل طور پھنس چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے تمام منصوبے فیل ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اب یوتھیوں کو 8 فروری کو بھرپور احتجاج کی کال دی گئی ہے کیونکہ پی ٹی آئی پورے ملک میں بھرپور مظاہروں کے ذریعے عالمی سطح پر اپنا معاملہ اٹھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی کوئی شنوائی ہو سکے۔مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی ایسی حکمت عملی اپنانا چاہتی ہے جس سے وہ سیاسی ہلچل میں بھی رہیں اور جیلوں میں موجود لیڈرز بھی باہر آ سکیں، جس کیلئے ان کے پاس اب مظاہروں کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔تاہم موجودہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ 8 فروری کو پی ٹی آئی کیلئے خیبرپختونخوا کے علاوہ دیگر صوبوں میں احتجاج کرنا ناممکن تو نہیں لیکن انتہائی مشکل ضرور ہو گا جبکہ 8 فروری کو کسی قسم کا دنگا فساد کرنے کی صورت میں پی ٹی آئی پر سیاست کے دروازے ہی بند کر دئیے جائیں گے۔

پیکا ایکٹ کا بنیادی مقصد فیک نیوز ختم کرنا ہے یا میڈیا کا گلا گھونٹنا

تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان تحریک انصاف اپنے پتے بہت غلط کھیل رہی ہے، پی ٹی آئی ہر وہ پتہ کھو رہی ہے جس کی بدولت وہ مشکل سے نکل سکتے ہیں۔جیسا کہ 24 نومبر کو پی ٹی آئی نے احتجاج کی کال دی اور پھر ہم نے علی امین اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات دیکھے، پھر وہی ہوا کہ 26 نومبر کو احتجاج سے بھاگ گئے۔ اب تو ان کے ہاتھ سے احتجاج کی طاقت بھی ختم ہو چکی ہے۔ مبصرین کے مطابق 8 فروری کو پی ٹی آئی کے احتجاج کی کال بھی کامیاب ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی کیونکہ پہلے علی امین گنڈا پور صوبے کے وزیراعلیٰ اور صوبائی صدر تھے اور تمام سرکاری مشینری بھی استعمال کرتے تھے، پیسہ بھی لگاتے تھے۔علی امین اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایم پی اے ، ایم این ایز اور کارکنان کو بھی خوش رکھتے تھے جبکہ کے پی کے کے پارٹی صدر جنید اکبر کے پاس ان میں سے ایک بھی چیز نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کے 8 فروری کے احتجاج کی ناکامی یقینی ہے۔ احتجاج کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کی مقبولیت اور طاقت پر مزید برا اثر پڑے گا۔

Back to top button