پی ٹی آئی کی دوبارہ احتجاج کی دھمکی موثر ثابت کیوں نہیں ہوگی؟

عمران خان کو 190 ملین پاؤنڈز کیس میں 14 برس قید کی سزا سنائے جانے کے بعد تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ بات چیت کا عمل تارپیڈو کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے، تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں اب پی ٹی آئی میں اتنا دم خم نہیں رہا کہ حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے موثر احتجاج کر پائے۔ خیال رہے کہ تحریک انصاف نے 8 فروری کو دوبارہ احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

اس سے پہلے تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے اعلان کیا تھا کہ پی ٹی آئی نے 28 فروری کو مذاکرات کے دور میں شرکت نہ کر کے عملی طور پر بات چیت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ اب حکومت تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے منت نہیں کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ویسے بھی مذاکرات تحریک انصاف کی اپنی خواہش پر شروع کیے گئے تھے، لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے بات چیت کو مشروط کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ سارے  عمل کو تارپیڈو کر دیا جائے۔

دوسری جانب تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر اور قومی اسمبلی میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ جنید اکبر کا کہنا ہے کہ

ہم پر پہلے دن سے یہی الزام تھا کہ ہم سیاسی لوگوں سے نہیں ملتے ورنہ ہمیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ فیصلے کسی اور نے کرنے ہیں۔ جیو ٹی وی کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کرتے ہوئے جنید اکبر نے کہا کہ پی ٹی آئی اب دوبارہ جارحانہ حکمت عملی اپنانے جا رہی ہے۔ جنید اکبر کا کہنا تھا کہ 8 فروری کے احتجاج کے بعد پارٹی کی دوبارہ تنظیم سازی کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو نئی تنظیم میں جگہ دی جائے گی جنھوں نے 9 مئی کے بعد مزاحمت کی اور حکومتی جبر کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ اب درمیان والی ہومیوپیتھک قیادت سائیڈ پر ہو جائے گی۔

جنید اکبر کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ہماری مذاکرات کی خواہش کو ہماری کمزوری بنا کر پیش کیا گیا۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات تو باقاعدہ طور پر شروع ہی نہیں ہوئے تھے کہ ختم بھی ہو گئے۔ ویسے بھی جسطرح کا ماحول تھا اس سے لگ نہیں رہا تھا کہ یہ مذاکرات کا ماحول ہے۔ ’دونوں طرف سے ایک دوسرے پر الفاظ اور تنقید کی گولہ باری جاری رہی، مذاکرات کے دوران کم از کم اتنی احتیاط تو ضروری ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف بیان روک دیں تو وہ بھی ختم نہیں ہوئی۔ مظہر عباس نے کہا کہ پہلے دن سے ہی نظر آ رہا تھا کہ یہ مذاکرات زیادہ دیر تک نہیں چلیں گے لیکن جتنی توقعات تھیں یہ اس سے پہلے ہی ختم ہو گئے اور کوئی بھی چیز خلاف توقع نہیں ہوئی۔

یاد رہے کہ رواں ماہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پشاور میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر خان سے ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد پارٹی قیادت نے حکومت کی بجائے فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ہی مذاکرات کی امیدیں زندہ کر لیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی نے حکومت کے ساتھ بات چیت میں نخرے دکھانا شروع کر دیے اور سارے مذاکراتی عمل کو پہلے ایک جوڈیشل کمیشن بنانے سے مشروط کر دیا۔

آرمی چیف اور بیرسٹر گوہر خان کی ملاقات کی خبر ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور مکمل ہوا تھا، اس دور میں پی ٹی آئی نے تحریری طور پر حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات کے حوالے سے 7 روز کے اندر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن اب حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کے باضابطہ خاتمے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ سے رابطوں میں مایوسی ہوئی اور دونوں کے درمیان مفاہمت کا راستہ بند ہو گیا؟

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ مفاہمت کے راستے کبھی بند نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ کہیں رؤف حسن نے یہ کہہ دیا کہ ہمارے رابطے ہیں لیکن بطور انفارمیشن سیکرٹری مجھے اس کی تردید جاری کرنا پڑی۔دراصل ہمارے ڈائیلاگ وہی تھے، جو حکومت کے ساتھ چل رہے تھے۔ فی الحال ہمارا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی بیک ڈور رابطہ نہیں۔ ہمارے کوئی پس پردہ مذاکرات نہیں ہو رہے۔‘ تاہم انھوں نے کہا کہ اگر فوجی اسٹیبلمشنٹ سے کوئی بات چیت ہوئی تو وہ کسی این آر او ٹائپ ڈیل کے لیے نہیں بلکہ صرف پاکستان کے لیے ہو گی۔

شیخ وقاص نے کہا کہ عمران خان یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر ہمیں فوجی اسٹیبلمشنٹ سے بات کرنا پڑی تو وہ کسی ڈیل کے حوالے سے نہیں ہو گی بلکہ وہ پاکستان کے لیے ہو گی۔  لیکن شیخ وقاص نے بارہا دہرایا کہ ’اس وقت کوئی بیک ڈور مذاکرات نہیں چل رہے۔ ہمارا کوئی ایسا رابطہ نہیں۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا کہ اس پر تبصرہ کرنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ انکا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر کی آرمی چیف سے ملاقات کی تصدیق دونوں ہی طرف سے ہو گئی تاہم دونوں طرف سے اس حوالے سے موقف مختلف سامنے آیا۔‘ مظہر عباس کے مطابق اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو عمران خان کو سزا ہو گئی، بشریٰ بی بی کو سزا ہو گئی۔ چنانچہ اب کوئی بڑا ریلیف نظر نہیں آ رہا جو پی ٹی آئی کے لیے ہو۔ لہازا ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیلبشمنٹ کی جانب بھی کوئی پیشرفت نہیں کوئی۔

علی امین گنڈاپور کی جگہ خیبر پختون خواہ پی ٹی آئی کے صدر نامزد ہونے والے جنید اکبر خان کا کہنا ہے کہ کہا کہ احتجاج کے لیے پی ٹی آئی مختلف آپشنز پر غور کر رہی ہے۔ ’ایک آپشن یہ ہے کہ ہم ڈسٹرکٹ کی سطح پر احتجاج کریں اور ایک یہ کہ ہم اسلام آباد کی طرف آئیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ تیسرا آپشن یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی حدود کے اندر سے دوسرے صوبوں کو جانے والے مرکزی راستے بند کر دیے جائیں۔ اس سوال پر کہ کیا عمران خان مکمل محاذ آرائی کی جانب جا رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’عمران خان کا مجھے پیغام آیا کہ ہمیں اس حکومت اور وزیرِ اعظم سے آگے کا سوچنا ہے۔ یہ چیزیں میں بھول گیا ہوں کہ میں نے وزیرِ اعظم بننا ہے۔‘ تاہم اس بارے میں شیخ وقاص اکرم نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ایم این اے اور سینیٹرز پارلیمان میں احتجاج جاری رکھیں گے جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی احتجاج کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ ’آٹھ تاریخ کو ہم نے یوم سیاہ کا اعلان کیا ہے، صوابی میں ایک گرینڈ جلسہ ہو گا، جنوبی پنجاب کے لوگ بھی وہاں آ جائیں گے اور اس کے علاوہ پورا کے پی بھی اس میں شامل ہوگا۔ باقی تین صوبوں میں ہمارے جو ضلعی ذمہ دار ہوں گے، وہ اپنے اپنے حساب سے احتجاجی ریلیاں، اور پبلک میٹنگز ہر شہر میں کریں گے۔‘

پاکستانیوں کے ساتھ 17 کروڑ روپے کا فراڈ کرنے والے چینی گرفتار

تاہم مظہر عباس کا ماننا ہے کہ جنید اکبر کے بیان سے ہی نظر آ جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر کتنے اختلاف ہیں۔ ’اپنی ہی قیادت کو ہومیو پیتھک کہنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی میں بہرحال اختلافات موجود ہیں۔‘ مظہر عباس نے کہا کہ تحریک انصاف کا اصل ٹیسٹ 8 فروری کو ہو گا جب عام انتخابات کو ایک برس مکمل ہو گا۔ چونکہ پی ٹی آئی نے اس روز ملک گیر احتجاج کی کال دی ہے لہازا دیکھنا ہے کہ کیا اب اس روز کسی تحریک کا آغاز ہوگا یا نہیں۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس تحریک کا آغاز پی ٹی آئی کرے گی یا کوئی متحدہ محاذ لیکن یہ نظر آ رہا ہے کہ 8 فروری کا دن ان کی نئی احتجاجی تحریک کے آغاز کے لیے لانچنگ پیڈ ہو گا۔

Back to top button