انڈیا اور پاکستان کو ہیروشیما اور ناگاساکی کے حملے کیوں یاد رکھنے چاہییں؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ ایک دوسرے پر حملے کی دھمکیاں دینے والے دونوں نیوکلیئر ہمسایوں یعنی انڈیا اور پاکستان کو جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی کا حشر یاد رکھنا چاہیے جہاں امریکی نیوکلیئر حملے سے لاکھوں بے گناہ شہری مارے گئے تھے۔

روزنامہ ایکسپریس کے لیے اپنی تازہ تحریر میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ بھارتی اور پاکستانی قیادت کو ایک بار اکٹھے ہیروشیما کا وزٹ کرنا چاہیے تاکہ انہیں وہاں مچنے والی تباہی دیکھ کر شرم آ جائے اور یہ دونوں ہمسائے لڑنے مرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر بیٹھ جائیں اور اپنے سارے مسئلے ایک ہی بار حل کر لیں، ورنہ ہمارے خطے کو راکھ کا ڈھیر بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر نیوکلیئر حملوں کے بعد  لوگ جلتے ہوئے زخموں کی شدت کم کرنے کے لیے پانی میں کود رہے تھے لیکن وہ ان کی تکلیف میں اضافہ کر رہا تھا‘ دوپہر تک دریا زخمیوں اور لاشوں سے بھر گیا‘ دریا کے پل پگھل کر زمین پر گرے تھے، عمارتیں زمین پر بکھری پڑی تھیں‘ سڑکیں غائب تھیں اور سورج گرد میں چھپا ہوا تھا۔

جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دو کلو میٹر کے دائرے سے باہر موجود لوگ بھی زخمی تھے مگر ان کی تکلیف قابل برداشت تھی، وہ ایک دوسرے سے مخاطب ہو کر پوچھ رہے تھے ’’کیا ہوا‘ کیا ہوا؟‘‘ لیکن کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا‘ شام پانچ بجے امریکا نے دعویٰ کیا‘ ہم نے ہیروشیما پر انسانی تاریخ کا خوف ناک ترین ہتھیار ’’ایٹم بم‘‘ پھینک دیا ہے۔  یہ خبر ماتم بن کر جاپان پر گری اور لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ جاپانی قوم نے جنگ عظیم کے بعد چند برسوں میں ہیروشیما کی عمارتیں‘ سڑکیں اور پل دوبارہ بنا دیے‘ شیما اسپتال کی عمارت بھی نئی بن گئی‘شہر دوبارہ آباد بھی ہو گیا لیکن ایک عمارت کو انسانی عبرت کے لیے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا۔ یہ عمارت ایکسپورٹ ایکسپو ہال کی تھی اور ہسپتال سے سو میٹر کے فاصلے پر تھی۔ یہ بلڈنگ 1915 میں بنی لیکن تعمیر کے 30 سال بعد ایٹم بم کے حملے میں بھی اس کا سٹرکچر محفوظ رہا۔ لہٰذا جاپانی حکومت نے دنیا کو اپنا تعمیراتی کرشمہ اور ایٹم بم کی تباہی دکھانے کے لیے یہ عمارت قائم رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یوں یہ عمارت آج پوری دنیا میں ایٹم بم کی تباہی کی علامت بن کر کھڑی ہے‘ آپ اگر شیما ہسپتال سے ایکسپو ہال اور وہاں سے دائیں جانب دریا کی طرف مڑیں تو آپ ان سیڑھیوں تک پہنچ جائیں گے جن سے لوگوں نے ایٹمی حملے کے دن پانی میں کودنا شروع کیا تھا۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ جب میں اس جگہ گیا تو تھوڑی دیر کے لیے وہاں رک گیا اور یہ سوچنے لگا کہ ہم انسان کس قدر خوف ناک ہیں‘ ہم جب ظالم ہوتے ہیں تو پھر ہم خود کو بھی برباد کرنے سے باز نہیں آتے‘ دنیا بھر میں آج بھی یہ سوال پوچھا جاتا ہے امریکا کو آخر ایٹم بم اور وہ بھی ہیروشیما اور ناگاساکی پرگرانے کی کیا ضرورت تھی؟

دنیا یقینا امریکا کو اس کا ذمے دار سمجھتی ہے جب کہ معاملہ بالکل مختلف تھا‘ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی زیادہ تر طاقتیں فوجی جرنیلوں اور شدت پسند وزیراعظم کے ہاتھوں میں تھیں اور یہ لوگ اندھا دھند فیصلے کر رہے تھے‘ امریکا خود کو جنگ سے بچا رہا تھا لیکن جرمنی نے برطانیہ میں امریکا کا مسافر بردار بحری جہاز اڑا دیا اور جاپان نے پرل ہاربر پر حملہ کر کے امریکا کے 188جنگی جہاز اور 2300 فوجی مار دیے، یوں امریکا بھی جنگ میں کودنے پر مجبور ہو گیا۔ اس جنگ میں امریکا کے ساڑھے بارہ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے‘ صرف 1944 میں 88 ہزار امریکی فوجی ہلاک ہو گئے‘ جنگ کی طوالت نے امریکا کو معاشی لحاظ سے بھی کم زور کر دیا تھا‘ اس کی فیکٹریاں بند تھیں‘ فوج میں جبری بھرتیوں کی وجہ سے کسان بھی ختم ہو گئے تھے اور زرعی اجناس کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔

جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ ان حالات میں امریکا بدترین دور میں داخل ہو گیا ‘ امریکی ماہرین کا خیال تھا کہ جنگ اگر 1946 میں داخل ہو گئی تو امریکا میں قحط پھوٹ پڑے گا اور آدھی آبادی مر جائے گی لہٰذا امریکا ہر صورت 1945 میں جنگ کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اس دوران ہٹلر نے 8 مئی 1945 کو سرینڈر کر دیا جس کے بعد امریکا یورپ سے فارغ ہو گیا اور اس کی تمام تر توجہ جاپان پر مرکوز ہو گئی۔ مگر جاپان جنگ بندی کے لیے تیار نہیں تھا۔ امریکی سائنس دانوں نے بھی اس دوران ایٹم بم بنا لیا اور جولائی 1945 میں برطانیہ اور امریکا نے جاپان پر ایٹم بم گرانے کا فیصلہ کر لیا۔

امریکی جہازوں نے جاپان میں فضا سے وارننگ کے پمفلٹ بھی پھینکے لیکن جاپانی حکومت باز نہ آئی‘ ان کا خیال تھا یہ محض دھمکیاں ہیں اور ان کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں جب کہ دوسری طرف امریکا نے جاپان کے چار شہر ہیروشیما‘ ناگاساکی‘ کو کورو اور نیگاٹا کو ٹارگٹ کر لیا‘ یہ بار بار وارننگ دیتا رہا مگر جاپان نہ مانا۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہیروشیما اور ناگا ساکی پر حملہ کیوں کیا گیا تھا؟ اس کی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ آبادی تھی‘ اتحادیوں کا خیال تھا جب بڑی تعداد میں جاپانیوں کے سویلین مریں گے تو ان کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا‘ دوسری وجہ فاصلہ تھا‘ امریکی جہاز ان شہروں پر حملہ کر کے آسانی سے واپس ٹنین جا سکتے تھے۔ چناں چہ 6 اگست 1945 کو صبح سوا آٹھ بجے ہیرو شیما پر پہلا ایٹم بم گرا دیا گیا ‘ اس حملے میں فوری طور پر 80 ہزار اور بعدازاں مزید 60 ہزار لوگ مرگئے‘ اب سوال یہ ہے امریکا نے تین دن بعد ناگاساکی پر بم کیوں گرایا؟ اس کی بھی دو وجوہات تھیں‘ پہلی وجہ جاپان کا ردعمل تھا۔

انڈیا پاکستان کو کاؤنٹر کرنے کے لیے کون سا نیا چورن بیچ رہا ہے ؟

اس دوران جاپانی وزیراعظم نے ہیروشیما کا انتقام لینے کا اعلان کر دیا۔ لہٰذا 9 اگست 1945کو 11 بج کر دو منٹ پر ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا گیا۔ وہاں 75 ہزارلوگ ہلاک ہو گئے‘ اس کے بعد ٹوکیو پر حملہ ہونا تھا مگر اس سے پہلے شہنشاہ ہیروہیٹو نے غیرمشروط سرینڈر کا اعلان کر دیا اور یوں 15 اگست 1945 کو جاپان کے سرینڈر کے بعد دوسری جنگ عظیم ختم ہو گئی۔ لیکن افسوس کہ تب تک انسانیت دم توڑ چکی تھی۔ لہذا ہیروشیما اور ناگا ساکی کے حملوں سے سبق سیکھتے ہوئے بھارت اور پاکستان کو آپسی کشیدگی بڑھانے کی بجائے مذاکرات کی ٹیبل کی طرف آنا چاہیے۔

Back to top button