پاکستان کو ایران کی حمایت کرتے ہوئے اعتدال کیوں برقرار رکھنا ہوگا ؟

اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران پاکستان کی جانب ایران کی غیر مشروط حمایت کا سلسلہ جاری ہے تاہم تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کو اسرائیل سے کشیدگی کے دوران سر عام ایران کی حمایت کی بجائے دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ساتھ لے کر چلنا ہو گا کیونکہ کسی ایک فریق کی حمایت سے پاکستان کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ سیاسی حلقوں میں ابھی سے خبریں وائرل ہیں کہ انڈیا اسرائیل سے گٹھ جوڑ کر کے دوبارہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے کیونکہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں بھی اسرائیلی ساختہ ڈرونز پاکستان کیخلاف استعمال کئے گئے تھے اس لئے اگر پاکستان ایران کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہونے کا فیصلہ کرتا ہے تو اسرائیل بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خطے کے موجودہ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اس لئے پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی تشکیل کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ جذبات کی بجائے خطے کے حالات اور عالمی رد عمل کو سامنے رکھتے ہوئے کرے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا مزید کہنا ہے کہ لامحالہ طور پر خطے کی موجودہ صورت حال کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا کیونکہ پاکستان نے کھل کر اسرائیلی حملے کی مخالفت اور ایران کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ مبصرین کے مطابق انڈیا اور اسرائیل کے قریبی تعلقات اور گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ پاکستان کے ساتھ حال ہی میں ہونے والی جنگ میں اسرائیلی جنگی ماہرین انڈیا میں موجود تھے، جبکہ جنگ میں اسرائیلی ڈرون بھی استعمال ہوئے۔ اسی طرح حالیہ اسرائیل ایران کشیدگی کے دوران جس طرح انڈیا نے اسرائیلی جارحیت کی حمایت کی ہے اسی طرح اسرائیل نے بھی پاکستان پر حملے کی پر زور حمایت کی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسرائیل اور بھارت ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں۔ اس لئے پاکستان کو ایران کی سفارتی اور اخلاقی مدد سے آگے نہیں جانا چاہیے کیونکہ اس صورت میں اسرائیل بھارت کو شہ دے کر پاکستان پر دوبارہ حملہ کرواسکتا ہے جو کسی طور بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیلی جارحیت پسندی نے مشرق وسطیٰ میں ایک خطرناک صورت حال پیدا کر دی ہے، جبکہ اسرائیل ایران کشیدگی میں امریکی مداخلت سے جاری جنگ پورے خطے میں پھیلنے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ایران کے جوہری پروگرام کو لے کر امریکہ مذاکرات کے چھٹے دور کا آغاز کا اعلان چکا تھا، اسرائیل کی جانب سے براہ راست حملے کا بنیادی مقصد ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا ہی تھا کیونکہ وہ ایران کے ساتھ کسی بھی ڈیل کے حق میں نہیں تھا۔ تجزیہ کاروں کے بقول اگرچہ شروع میں امریکہ نے اسرائیلی حملے سے خود کو لا تعلق رکھا لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ حملہ امریکہ کی مرضی کے بغیر ہوا ہے یا امریکی انٹیلی جنس اس سے بالکل ہی بےخبر ہو۔ تاہم اب امریکی صدر نے کھلے عام نہ صرف اسرائیل کی حمایت شروع کر دی ہے بلکہ اسرائیل کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کا بھی اعلان کر دیا ہے ان حالات نے ایران کے حمایتی ممالک کیلئے دوہری مشکلات کھڑی کر دی ہیں اور وہ اس حوالے سے پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ایران پر اسرائیلی حملے سے تین دن پہلے تقریباً تمام امریکی میڈیا انٹیلی جنس ذرائع سے رپورٹ کر چکا تھا کہ اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کر سکتا ہے، لیکن یہ حملہ اتنا مہلک ہو گا جس میں ایران کی ٹاپ عسکری قیادت سمیت سائنس دانوں کو بھی نشانہ بنایا جائے گا، اس بات کا ادراک شاید ایران کو بھی نہیں تھا۔ مبصرین کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہو اس حملے سے جہاں ایران اور امریکہ کے مذاکرات سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوئے وہیں دوسری جانب اپنا اقتدار اور اسرائیل میں گرتی ہوئی سیاسی ساکھ سے توجہ ہٹانے میں بھی کامیاب رہے ہیں کیونکہ ایران پر اس حملے سے چند دن پہلے ہی پارلیمان میں وہ بمشکل چند ووٹوں سے اپنی حکومت بچا پائے تھے۔ تاہم ایران اسرائیل جنگ نے پورے خطے کو بدامنی کی آگ میں دھکیل دیا ہے جبکہ دوسری جانب انڈین میڈیا اور سوشل میڈیا پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ایران کے نیشنل سکیورٹی کونسل کے رکن محسن رضایی کی آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے ویڈیوز بنا کر پاکستان کو اس جنگ میں دھکیلنے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ ان ویڈیوز میں ایرنی مشیر محسن رضایی سے یہ جملہ جوڑا گیا کہ پاکستان نے انہیں بتایا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر کمییائی ہتھیاروں سے حملہ کیا تو پاکستان اسرائیل پر جوابی ایٹمی حملہ کر دے گا، اس طرح کی مختلف ویڈیوز کو اسرائیل اور بھارتی سوشل میڈیا پر خوب پھیلایا جا رہا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف عالمی ماحول بنایا جا سکے۔ ان حالات میں مختلف پاکستانی وزراء کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ حالات میں پاکستان کو پرائی آگ میں کودنے کو کوشش کرنے کی بجائے احتیاط سے کام لینا چاہیے اورحکومتی وزرا کو بھی اپنے بیانات میں جذبات سے زیادہ سفارتی زبان اور لب و لہجے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ کسی نئی آزمائش سے ملک کو بچایا جا سکے۔