پنجاب کو سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ کیوں ترک کر دینا چاہیے ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ پنجاب نے تو چھوٹے صوبوں کی خوشی کی خاطر کالا باغ ڈیم جیسا منافع بخش منصوبہ چھوڑ دیا تھا، ایسے میں سندھ کے پانی سے نہریں نکالنے کا منصوبہ ڈیم کے مقابلے میں مونگ پھلی کے برابر بھی نہیں، لہذا ملکی یکجہتی کی خاطر وفاق کو اس سے بھی ٹل جانا چاہیئے۔ ہم وفاق اور مشرقی پاکستان کی چپقلش کے نتیجے میں ایک افسوسناک علیحدگی دیکھ چکے ہیں، لہذا ملکی وحدت برقرار رکھنے کی خاطر وفاق کو ہر فیصلہ اتفاق رائے سے کرنا چاہیئے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ بظاہر دریا پانی کی گزرگاہ کا نام ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، دریا تہذیبوں کو بھی جنم دیتے ہیں اور اگر یہ خشک ہو جائیں تو تہذیب بھی مرجھا جاتی ہے ۔زندگی انسانی ہو، حیاتیاتی ہو یا نباتاتی اس کا انحصار پانی پر ہوتا ہے۔ دریا زندگی، تہذیب اور ثقافت کا منبع ہیں، اسی طرح نہریں اور ثقافت بھی ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ ہمارا دریائے سندھ یا انڈس ریور اس خطے میں سب سے ذیادہ اہمیت کا حامل ہے، اس پورے خطے کا نام اگر انڈیا ہے تو وہ بھی اصل میں دریائے سندھ کے نام سے نکلا ہے، صوبہ سندھ تو ہے ہی سو فیصد اس سے موسوم۔ دریائے سندھ نہ صرف پختونخوا بلکہ پنجاب اور پھر سندھ کو سیراب کرکے زندگی بخشتا ہے۔ میں جوہر آباد کا رہائشی ہوں دریائے جہلم کا پڑوسی ہونے کے باوجود ہمیں پانی دریائے سندھ کا ملتا تھا اس حوالے سے میں نے خود کو ہمیشہ سندھ سپوتر سمجھا ہے ۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس خطے کی قدیم ترین تحریری تاریخ کے مطابق جو یورپی سب سے پہلے برصغیر میں آیا وہ ایران کے راستے آج کے بلوچستان میں داخل ہوا۔ دریائے سندھ جیسا بڑااور طاقتور دریا دیکھ کر وہ مبہوت رہ گیا، چنانچہ یورپ کے اس پہلے سیاح نے لکھا کہ اس میں سونا دفن ہے جو ہر وقت پانی کےساتھ بہتا رہتا ہے، اس سیاح نے لکھا کہ اس سونے کی حفاظت کے لئے قدآدم گدھ مامور ہیں جو دریا سے سونا نکالنے والے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔ بظاہر یورپی سیاح کی یہ تحریر دیومالائی لگتی ہے لیکن اس میں کچھ حقیقت بھی ہے۔ بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم کے متاثرین کو ان کے نقصان کے ازالے کیلئے دی جانے والی امداد کے انچارج وزیر انجینئر امیر مقام نے مجھے بتایا کہ دریائے سندھ پر بنائے جانے والے ان ڈیموں کے متاثرین میں پندرہ سو لوگوں کا ایک قبیلہ ہے جو سونار کہلاتا ہے اور وہ کئی پشتوں سے دریائے سندھ سے سونا نکالنے کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں، ڈیم کی تعمیر کیلئے ان سونار متاثرین کو بھی امدادی رقم دی جا رہی ہے۔ اسلام آباد میں مجھے ایک ٹھیکے دار ملا جس نے بتایا کہ پختونخوا میں وہ کرینوں اور جدید آلات کے ذریعے سے دریائے سندھ سے سونا نکالتے ہیں اور حکومت سے اس کا م کے لئے باقاعدہ لائسنس لیا جاتا ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سونے سے بھرے دریائے سندھ میں سے نہریں نکالنے کے منصوبے پر آج کل شدید تنازع جاری ہے۔ اگر اس علاقے کی قدیم ترین تہذیبوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ بلوچستان کے علاقے میں سات ہزار سال پرانی تہذیب مہرگڑھ میں ملنے والی کئی مورتیاں پیتل سے بنی ہیں۔ گویا تب بھی اس علاقے سے پیتل نکالا جاتا تھا۔ اسی مہر گڑھ کی تہذیب کے کئی تجربات کو سندھ کی موہنجو دڑو تہذیب نے اپنایا اور پھر ہڑپہ میں اس تہذیب کا پرتو ہے، موہنجو دڑو اور ہڑپہ میں جس "ڈھگے” کی تصویر نمایاں طور پر نظر آتی ہے وہ دیوہیکل ہے اور اس کی گردن بہت بھاری ہے۔ آج کے دور میں نہ تو گائے میں وہ نسل موجود ہے اور نہ ہی گدھ کا سائز دیو ہیکل ہے جیسا کہ یورپی سیاح نے دیکھا تھا۔
اگر تاریخ، تہذیب کا مثبت حوالہ ہے تو سندھ اور پنجاب کے دھارے بہت ملتے ہیں، نہروں یا ڈیم کے حوالے سے میرا خیال ہے کہ پنجابی بھائی بڑا ہے لہازا اسے سندھو سائیں کی مرضی کے بغیر کوئی ڈیم یا کوئی نہر دریائے سندھ پر نہیں بنانی چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ جس طرح پنجاب نے کالا باغ ڈیم میں بھرپور ذاتی، تجارتی اور مالیاتی مفاد کے باوجود اسےترک کردیا اور یہ طے کرلیا کہ سندھی بلوچی اور پشتون بھائیوں کی مرضی کےبغیر کچھ نہیں ہوگا، وہ اسی طرح اب بھی ایک صائب فیصلہ کرے گا۔ میری رائے میں اگر پنجاب نے کالا باغ ڈیم جیسا منافع بخش منصوبہ بھائیوں کی خوشی کیلئے چھوڑ دیا تو کینالز یا نہریں تو ڈیم کے مقابلے میں مونگ پھلی کے برابر بھی نہیں۔ بہتر ہو گا کہ صوبوں کے وسائل اور اختیارات کی تقسیم میں 1973ء کے آئین اور اٹھارہویں ترمیم کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔
وزیراعظم 2 روزہ سرکاری دورے پر ترکیہ روانہ
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ پچھلے تین سو سال سے پنجاب اس خطے کے اقتدار کا سب سے بڑا شراکت دار ہے، لیکن بدلتے حالات اور انصاف کے مدنظر ہمیں چھوٹے صوبوں کے لئے نہ استعمار بننا چاہیے اور نہ ہمیں استحصال میں حصہ ڈالنا چاہیے۔ چھوٹے صوبے پنجاب اور فوج کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فوج اور پنجاب کا فائدہ اور نقصان مشترکہ ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے، پنجاب میں بھی فوج کے حامی اور اسکی پالیسیوں سے اختلاف کرنے والے موجود ہیں۔ پنجابیوں کی کثیر تعداد بلوچستان آپریشن کی مخالف اور سیاسی حل کی حامی تھی، لیکن جب بلوچ دہشت گردوں کے ہاتھوں پنجابیوں کو چن چن کر مارا جانے لگا تو رائے عامہ بدلنے لگی، اب پنجاب کی محفلوں میں پنجابیوں کو مارنے والوں سے ہمدردی ختم ہو چکی ہے اور کسی آپریشن کی صورت میں پنجاب سے ان کے حق میں آواز نہیں اٹھے گی۔ کاش ہم مہر گڑھ، موہنجو دڑو اور ہڑپہ کے رشتوں اور تاریخی مضبوط دھاگوں کو دیکھ کر جھگڑوں سے پرہیز کریں اور مل جل کر رہنے والے بن جائیں!!