پی ٹی آئی کی مقبولیت کے غبارے کو پنکچر لگانا ضروری کیوں ہو گیا؟

تحریک انصاف میں سامنے آنے والے اختلافات اور گروپنگ کے بعد یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ پی ٹی آئی جس طرح ہوا کے بلبلے کی طرح نمودار ہوئی تھی اب اسی طرح زوال کا شکار ہورہی ہے مبصرین کے مطابق تحریک انصاف یوں توکئی دھڑوں میں بٹ چکی ہے لیکن اس وقت وکلاء گروپ جس کو بشریٰ بی بی کی حمایت حاصل ہے وہ سب سے آگے ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی موجودہ صوبائی قیادت اور پہلے سے موجود رہنماؤں میں اختلافات تو واضح ہیں ہی جبکہ دوسری جانب اس وقت پنجاب میں تو نہ قیادت ہے نہ کارکن باہر نکلنے کو تیار ہیں۔ سندھ خصوصا کراچی میں بھی پی ٹی آئی کی صورتحال انتہائی پتلی ہو چکی ہے۔ حقیقت میں اب پی ٹی آئی صرف اسلام آباد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جس پر اس وقت بشری بی بی کا’’حمایت‘‘ یافتہ وکلاء گروپ حاوی ہے۔ باقی قیادت بمع چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کواڈیالہ جیل سے نئے احکامات کا علم بھی اسی گروپ کے ذریعے ہوتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان میں کبھی بھی کسی جماعت کایہ انجام ہوتا نہیں دیکھا گیا تاہم اس کے ذمہ دار بانی پی ٹی آئی عمران خان خود ہیں جن کا نہ تو کوئی سیاسی نظریہ یا بیانیہ ہے اور نہ ہی وہ سیاسی اصولوں کی پاسداری پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران خان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ تحریکیں اصولوں پر کھڑی ہوتی اور چلتی ہیں لیکن اصولوں کو نیلام کرنیوالی تحریکیں ماضی کی داستان بن جاتی ہیں اور یہی حال تحریک انصاف کا ہو رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق پی ٹی آئی کمپرومائزڈہوچکی ہے۔ یوتھیے رہنماؤں باہمی دست و گریبان ہیں جبکہ کارکنان تو ویسے ہی رل گئے ہیں۔ مبصرین کے مطابق غور کریں کہ26نومبر کی فائنل کال کو آخری معرکہ قرار دینے والے، کفن ساتھ لانے کے نعرے لگاکر کارکنوں کو اکسانے والے اور عمران خان کو ساتھ لے کر جائیں گے یا یہاں سے ہمارے جنازے واپس جائیں گے کے دعوے کرنے والوں کو دنیانے دیکھا کہ وہ توجوتیاں بھی چھوڑ کر میدان سے فرار ہوگئے۔ جس سے ثابت ہوگیا کہ اس جماعت کاسیاست، نظریہ اور اصولوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شیر افضل مروت جو ایک نظریاتی کارکن کے طور پرجانے جاتے تھے، انھوں نے پارٹی کے لئے ہرقسم کی قربانی دی، ایسے مخلص، بے لوث اور نظریاتی کارکن کو جس طرح بے آبرو کرکے پارٹی سے نکالا گیا اس کو پی ٹی آئی قیادت کی بےشرمی اور ذاتی مفادات کے لئے ایسے کارکنان کوقربان کرنا ہی کہا جاسکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق عمران خان کی جیل یاترا کے بعد علیمہ خان کو کاونٹر کرنے کیلئے پی ٹی آئی میں گروپ بندی کی ابتدا بشری بی بی نے کی۔ چونکہ پنکی پیرنی پارٹی میں سب سے مضبوط ، موثر اور طاقتور شخصیت ہیں اس لئے حکم بھی ان ہی کا چلتا ہے بانی پی ٹی آئی عمران خان تو صرف تائید کرتے اور منظوری دیتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی میں اختلافات کی خلیج مزید بڑھتی دکھائی دے رہی ہے ابھی پارٹی سے مزید لوگوں کو نکالنے کا فیصلہ ہو چکا ہے لگتا ہے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ باوثوق ذرائع نے بتایا ہے کہ کئی لوگ خود پارٹی کو چھوڑ جائیں گے ان کے دوسری جماعتوں سے معاملات بھی چل رہے ہیں۔

شیخ رشید عرف شیدے ٹلی نے پنڈی میں چائے پراٹھے کا ڈھابہ کھول لیا

مبصرین کے مطابق جہاں ایک طرف یوتھیے رہنماؤں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے پارٹی تتر بتر ہو رہی ہے وہیں دوسری جانب بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایت پر دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ حکومت مخالفت گرینڈ الائنس بنانے کی بیل بھی تاحال منڈھے نہیں چڑھائی جاسکی۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت جے یو آئی کے بارے میں ذرائع نے بتایا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کا اس الائنس میں شامل ہونے کا کوئی ارادہ نہیں ہے کیونکہ ایک تو جے یو آئی کے کارکنان وہ القابات کبھی نہیں بھول سکتے جو بانی پی ٹی آئی ہر تقریر میں مولانا فضل الرحمان بارے دہراتے رہتے تھے اس لئے کارکنان پی ٹی آئی کیساتھ کسی قسم کے اتحاد کو قبول نہیں کرینگے۔ دوسری وجہ یہ کہ پی ٹی آئی کا کوئی رہنما با اختیار نہیں ہے تمام اختیارات کا منبع اڈیالہ جیل میں ہے اور انکا کوئی بھروسہ نہیں کہ کس وقت کس بات یا فیصلے سے منکر ہوجائیں۔ اس صورتحال میں عید کے بعد تحریک چلانے کی باتیں محض کارکنوں کو دلاسہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں اور اگر پی ٹی آئی نے یہ ایک اور غلطی کربھی لی تو انجام وہی عبرتناک ناکامی ہوگا جیسا  کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔

Back to top button