5 اگست کی ناکامی کے بعد 14 کو احتجاج کا فیصلہ کیوں ہوا؟

پی ٹی آئی قیادت 14 اگست جیسے قومی یکجہتی کے دن کو بھی متنازع بنانے پر تل گئی۔ تحریک انصاف نے احتجاج کا اعلان کر کے یومِ آزادی جیسے قومی اتحاد کے دن کو بھی اپنی احتجاجی سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ایک طرف عوام جشنِ آزادی کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں، تو دوسری طرف پی ٹی آئی اپنی مسلسل احتجاجی کالز کے ذریعے معاشرتی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کرنے پر تُلی دکھائی دیتی ہے۔ تاکہ حکومت اور ریاستی اداروں پر دباؤ بڑھا کر پارٹی کیلئے ریلیف کی راہ ہموار کی جاسکے۔
تاہم مبصرین کے مطابق حکومت یا ریاست کے کسی احتجاج کے سامنے جھکنے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم 14 اگست کو احتجاج کا اعلان کر کے پی ٹی آئی نے خود کو ایک ایسی سیاسی جنگ میں الجھا لیا ہے جس سے نکلنا اس کے لیے نہ صرف مشکل بلکہ سیاسی طور پر نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کی یہ ضدی حکمت عملی نہ صرف عوامی اعتماد کو بری طرح مجروح اور قومی یکجہتی کو زد پہنچائے گی بلکہ اس احتجاج کا خمیازہ پی ٹی آئی قیادت کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے 5اگست کی کال بری طرح ناکام ہونے کے بعد اب فیس سیونگ کیلئے 14 اگست کو عوامی ہجوم میں شامل ہو کر خود کو “عوامی تحریک” ثابت کرنے کا نیا منصوبہ بنا لیا ہے۔ نئی منصوبہ بندی کے تحت جشن آزادی کے موقع پر جب پورا پاکستان سڑکوں پر ہوگا تو مختلف شہروں میں ٹولیوں کی شکل میں پی ٹی آئی کے کارکنان پارٹی جھنڈے لے کر اس میں شامل ہو جائیں گے، تا کہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ یہ جم غفیر پی ٹی آئی کے لوگوں کا ہے۔ بعد ازاں اسے ہی پی ٹی آئی کی احتجاجی تحریک کا عروج قرار دے دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق سوشل میڈیا ٹیم کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ اس موقع کی تصاویر اور ویڈیوز کو ایڈیٹ کر کے سوشل میڈ یا پر پھیلا دیا جائے۔ تا کہ ایسا لگے کہ واقعی یہ بجوم تحریک انصاف کے کارکنوں کا ہے۔
تاہم مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی حالیہ احتجاجی پالیسی بظاہر اپنے بیانیے کو زندہ رکھنے کی کوشش ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک ایسا داؤ لگتا ہے جو الٹا پارٹی کے لیے مہلک ثابت ہو گا۔ احتجاج، جلسے اور ہڑتالیں جمہوری عمل کا حصہ ضرور ہیں، مگر مسلسل انتشار کی فضا پیدا کرنا اور خصوصا قومی یکجتی کے ایام کو مسلسل سبوتژ کرنے کی روش اختیار کرنا عوام کے صبر اور اعتماد دونوں کو کھا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق یومِ آزادی جیسے مواقع قوم کو یکجا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں، مگر پی ٹی آئی نے اس دن کو بھی اپنے سیاسی دباؤ کی حکمت عملی میں شامل کر کے ایک خطرناک مثال قائم کر دی ہے۔ اس طرزِ عمل نے مخالف جماعتوں کو یہ بیانیہ بنانے کا موقع دے دیا ہے کہ پی ٹی آئی قومی مفاد پر ذاتی سیاست کو ترجیح دیتی ہے۔ ایسے اقدامات نہ صرف عوام میں پارٹی کی مقبولیت کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی کسی بھی پارٹی کی سیاسی سنجیدگی پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔
شیر افضل مروت کی پی ٹی آئی میں واپسی کےلیے راہ ہموار ہونے لگی
سایسی تجزیہ کاروں کے بقول پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی اس کی نظریاتی اور عملی کمزوری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان کے کہنے پر "احتجاجی تحریک عروج پر پہنچانے” کا جو وعدہ کیا گیا تھا، وہ صرف دکھاوے کے لئے ایک روزہ احتجاج، خالی ریلیوں اور ویڈیو ایڈیٹنگ کی منصوبہ بندی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کارکنان، جو کبھی پارٹی کا اثاثہ ہوا کرتے تھے، آج اپنی قیادت سے نالاں اور بددل دکھائی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اب تعریف سے زیادہ طنز و ملامت کے تبصرے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف اگر واقعی ایک عوامی اور انقلابی جماعت ہے تو اسے سوشل میڈیا کی کیمرہ ایڈیٹنگ سے باہر نکل کر زمینی حقیقتوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ جعلی ہجوم دکھانے اور احتجاج کا صرف تاثر دینے سے نہ تو عمران خان رہا ہوں گے، نہ پارٹی کو سیاسی بحالی نصیب ہوگی۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستانی ریاست اور حکومتیں شاذ و نادر ہی کسی دباؤ یا احتجاج کے سامنے فوری جھکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں بھی یہی امکان ہے کہ حکومت طاقت کے تمام اداروں کو استعمال کر کے احتجاج کو محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔ اس سے ایک طرف پی ٹی آئی کے لیے قانونی مسائل اور گرفتاریوں کا خطرہ بڑھے گا، تو دوسری طرف عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا امکان بھی کم ہو جائے گا، کیونکہ مہنگائی کے مارے لوگ سیاسی کشمکش سے زیادہ روزمرہ مسائل پر توجہ چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی میں سیاسی بصیرت اور زمینی حقائق کا فقدان نظر آتا ہے۔ احتجاج کو مقصد کے حصول کا ذریعہ بنانے کی بجائے اسے ایک مستقل کیفیت میں بدل دینا پارٹی کو تنہا کر سکتا ہے۔ اگر پی ٹی آئی نے اپنی پالیسی پر نظرثانی نہ کی تو یہ نہ صرف عوامی حمایت کھو سکتی ہے بلکہ قومی سیاست میں اپنی اہم پوزیشن بھی خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی نے اگر یوم آزادی پر عوامی جوش و خروش کوسیاسی انتشار میں بدلنے کو کوشش کی تو یہ خود پی ٹی آئی کے لئے چارج شیٹ بنے گی اور اسے آنے والے دنوں میں اس پر جوابدہ بننا پڑے گا۔
