انڈیا پاکستان جنگ پہلے سے زیادہ خطرناک کیوں ہوگی ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار جاوید چوہدری نے کہا ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے مابین جنگ کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے لیکن اس مرتبہ یہ بہت ہی خوفناک ہو گی کیوں کہ بھارتی اور پاکستانی میڈیا اپنی حکومتوں کو پیچھے نہیں ہٹنے دے رہا۔ انکا کہنا ہے کہ 2019 میں تو امریکا اور برطانیہ نے جنگ رکوا دی تھی لیکن اس بار ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا، دنیا دو نیوکلیئر ہمسائیوں کا تماشہ دیکھ رہی ہے، شاید دنیا اس بار ان دونوں کو لڑتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں جاوید چوہدری کہتے ہیں کہ دنیا شاید اس مرتبہ انڈیا اور پاکستان کی جنگ اس لیے دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ دونوں کو جنگ سے روک روک کر تھک چکی ہے‘ ساؤتھ ایشیا کے یہ ہمسائے ہر دو تین سال بعد ایٹم بم دھوپ میں رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں‘ لہٰذا دنیا بھی تنگ آ گئی ہے اور اس نے فیصلہ کیا یہ لوگ ایک بار اپنا شوق پورا کرلیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کہیں یہ جنگ دنیا کی بڑی قوتوں نے سٹارٹ نہ کی ہو‘ پہلے جعفر ایکسپریس کا واقعہ کرایا گیا اور پھر پہلگام کا۔ کہیں ان حملوں کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کرانا نہ ہو تاکہ دنیا کے ہتھیار بھی بک سکیں اور پاکستان اور بھارت دونوں کی معاشی کمر بھی ٹوٹ جائے‘ شاید یہی وجہ ہے کہ اس بار دنیا ڈھیلی ڈھالی قراردادیں پاس کر کے سائیڈ پر بیٹھ گئی ہے اور دونوں کا تماشا دیکھ رہی ہے‘ لہٰذا پاکستان اور انڈیا کو یہ نقطہ لازمی اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔
پہلگام حملے کے حوالے سے جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اس علاقے کی وجہ شہرت سیاحت ہے‘ شہر کے گرد درجن بھر ایسے مقامات ہیں جہاں بھارت سے لوگ تفریح کے لیے آتے ہیں‘ ان مقامات میں بسیران وادی بھی شامل ہے‘ یہ وادی پہلگام سے سات کلومیٹر دور ہے لیکن سڑک نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پہنچنے کے لیے 45 منٹ لگ جاتے ہیں‘ 22 اپریل 2025 کو اس چراہگاہ کے قریب موجود جنگل سے چار نوجوان نکلے۔ انھوں نے فوجی یونیفارم پہن رکھی تھی اور ان کے ہاتھوں میں امریکی ساختہ ایم فور رائفلیں تھیں‘ یہ چاروں وہیں موجود سیاحوں کے پاس آئے‘ ان کے شناختی کارڈ چیک کیے اور انھیں گولیاں مارتے چلے گئے‘ 20 منٹ کی اس کارروائی میں 26 سیاحوں کو قتل کر دیا گیا جب کہ 17 کو زخمی کر کے میدان میں پھینک دیا گیا‘ بعد میں یہ دہشت گرد جنگل میں غائب ہو گئے اور بھارتی سیکیورٹی فورسز اب تک انھیں تلاش نہیں کر پائیں۔
بھارت اور پاکستان کے اس حملے کے بارے میں دو مختلف ’’ورژن‘‘ ہیں۔ بھارت کے مطابق یہ ایک فوجی آپریشن تھا‘ دہشت گردوں نے ایک ایسا مقام منتخب کیا جہاں سڑک اور موبائل فون سگنل نہیں ہیں‘ قریب ترین فوجی کیمپ بھی گھنٹہ بھر کے فاصلے پر ہے‘ فوج کا ہیلی پیڈ ایک گھنٹے کی فلائیٹ پر ہے‘ ہسپتال بھی دور ہیں اور تھانہ بھی‘ دوسرا یہ لوگ دن ڈیڑھ بجے آئے‘ 20 منٹ میں کارروائی کی اور اس کے بعد جنگل میں غائب ہو گئے‘ دہشت گرد جانتے تھے بھارتی فوج اور حکومت کو ایکٹو ہونے میں تین سے چار گھنٹے لگ جائیں گے چناں چہ یہ اطمینان سے واپس پہنچ گئے‘ انھوں نے فوجی وردیاں بھی پہن رکھی تھیں تاکہ پولیس اور فوج سے چھپ سکیں اور یہ ایک فوجی طریقہ کار ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق پہلگام کی واردات جعفرایکسپریس جیسی ہے۔ اس میں بھی دہشت گردوں نے مسافروں سے نام پوچھ کر گولی ماری اور زیادہ تر فوج کے جوان شہید کیے گئے‘ پہلگام میں بھی نام پوچھے گئے اور فوج اور خفیہ اداروں کے لوگوں کو نشانہ بنایا گیا‘ جعفر ایکسپریس میں بھی صرف مردوں کو قتل کیا گیا تھا‘ کسی خاتون اور بچے کو شکار نہیں کیا گیا‘ پہلگام میں بھی صرف مردوں کو قتل کیا گیا‘ جعفر ایکسپریس میں بھی 26 لوگ شہید ہوئے‘ پہلگام میں بھی 26 لوگ مارے گئے آخری نشانی یہ کہ دونوں حملوں میں وہ رائفلیں استعمال ہوئیں جو امریکا افغانستان میں چھوڑ گیا ہے۔ بھارت کا خیال ہے کہ اس کی خفیہ ایجنسی "را” نے بلوچستان لبریشن ارمی کے ذریعے 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس کا اغواء اور قتل عام کیا تھا اور آئی ایس آئی نے 22 اپریل کو پہلگام میں اس کا بدلہ لے لیا۔
یاد رہے کہ جنرل مشرف کے دور تک "را” جب بھی پاکستان میں کوئی دہشت گردی کرتی تھی تو آئی ایس آئی چند دن میں بھارت میں اس کا بدلہ لے لیا کرتی تھی‘ مشرف اور واجپائی نے 2004 میں یہ سلسلہ بند کر دیا تھا لیکن جعفر ایکسپریس کے سانحے کے بعد یہ معاہدہ ختم ہو گیا اور پاکستان نے اب دوبارہ بدلہ لینا شروع کر دیا ہے۔ لیکن یہ بھارتی موقف ہے جسے پاکستان تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان کا موقف بالکل مختلف ہے‘ اس کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 7 لاکھ بھارتی فوج موجود ہے‘ لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی سرحد پار سے آئے اور 27 افراد قتل کر کے کر واپس چلا جائے۔ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ پہلگام کا حملہ بھارت کا اپنا فالس فلیگ آپریشن ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر یہ ان کی خوف ناک نااہلی اور ناقابل برداشت ’’سیکیورٹی فیلیئر‘‘ ہے۔
جاوید چوہدری کے مطابق پاکستان کا پہلگام حملے سے اس لیے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کہ پاک بھارت لائن آف کنٹرول پہلگام سے اڑھائی تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے‘ کوئی بھی شخص یہ فاصلہ چند گھنٹوں میں طے نہیں کر سکتا‘ خصوصا جب بھارت نے ایل او سی پر آہنی باڑ لگا رکھی ہے اور یہاں 24 گھنٹے نگرانی ہوتی رہتی ہے‘ اتنی کڑی نگرانی میں دہشت گرد پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں اور اگر چلے بھی جائیں تو واردات کے بعد یہ بچ کر واپس نہیں جا سکتے لہٰذا پہلگام حملہ یا تو ایک فالس فلیگ آپریشن ہے یا پھر کسی مقامی جہادی تنظیم کا کام ہے‘ پاکستان بار بار بھارت سے یہ بھی کہہ رہا ہے اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے تو آپ یہ دے دیں‘ ہم بین الاقوامی تفتیش کے لیے بھی حاضر ہیں لیکن بھارت یہ پیشکش قبول نہیں کر رہا چناںچہ پاکستان اور بھارت 27 فروری 2019 کی طرح ایک بار پھر جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
بھارت بوکھلاہٹ کا شکار : بھارتی فضائیہ کے نائب سربراہ ایئرمارشل ایس پی دھارکر عہدے سے برطرف
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے پاس ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی دوسری آپشن نہیں‘ یہ دونوں نیوکلیئر پاور ہیں اور دونوں میں ضد‘ انا‘ بے وقوفی اور جہالت کا غلبہ ہے۔ دونوں ملکوں میں ایسے لوگ بااثر اور طاقتور ہو چکے ہیں جن کی نظر میں جنگ اور ایٹم بم کھلونے ہیں اور یہ لوگ یہ کھیل‘ کھیل کر رہیں گے، چناں چہ عقل کا تقاضا ہے دونوں ملک کسی تیسری طاقت کو شامل کے بغیر اکٹھے بیٹھیں اور اپنا تنازعہ 20 سال کے لیے فریز کرنے کا اعلان کر دیں۔ پھر دونوں جنگ نہ لڑنے کا وعدہ کریں‘ اپنی سرحدیں اور تجارت کھولیں اور ترقی کی دوڑ میں لگ جائیں‘ یاد رکھیں دنیا کی دس ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ ملک ترقی نہیں کیا کرتے بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں‘ امریکا نے ترقی نہیں کی بلکہ پورے براعظم امریکا نے ترقی کی‘ برطانیہ اور فرانس نے ترقی نہیں کی بلکہ پورے یورپ نے ترقی کی‘ لہٰذا بھارت بھی تب ہی ترقی کرے گا جب پورا برصغیر آگے بڑھے گا، ورنہ سانپ اور سیڑھی کا یہ کھیل ہمیشہ جاری رہے گا چناں چہ امن کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔