66 ہزار پاکستانی فیس جمع کروا کر بھی حج کیوں نہیں کر پائیں گے ؟

یہ ایک دو نہیں، سو پچاس نہیں، ہزار دو ہزار نہیں، بلکہ ان 66 ہزار پاکستانی حاجیوں کا مسئلہ ہے جو اپنی جمع پونجی لگا کر حج کی آس میں بیٹھے ہیں مگر حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ اس برس آپ کا کچھ نہیں بننے والا، آپ کی ٹرین چھوٹ چکی ہے، آپ اگلے سال کا انتظار کریں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اکثر پاکستانی جس عمر میں حج پر جانے کا پلان بناتے ہیں وہ عموماً انکی زندگی کے آخری چند سال ہوتے ہیں، ایسے میں کون جانے اگلے سال کون زندہ بچے گا اور کون حج کی نعمت سے سرفراز ہوئے بغیر اگلے جہان رخصت ہو جائے گا۔ کسے علم کہ ان 66 ہزار مایوس پاکستانیوں میں سے کتنے اس قابل رہ جائیں گے کہ وہ اگلے برس حج کر سکیں۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان 66 ہزار حاجیوں کی مایوسی کی وجہ ان کی اپنی غلطی ہو، ان کے ٹور آرگنائزر کی کوتاہی ہو، حکومت پاکستان کی نااہلی ہو یا سعودی عرب کی جارحانہ پالیسی ہو، وجہ جو بھی ہو لیکن یہ 66 ہزار سے زائد پاکستانیوں کے حج کا مسئلہ ہے۔ مہذب دنیا میں تو حاکم ایک شہری کا مسئلہ حل کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیتے ہیں لیکن ہماری حکومت اور اس کے بیرون ملک قائم سفارت خانے تساہل کا مظاہرہ کرتے ہیں جس سے پاکستانیوں کے جائز حقوق بھی مارے جاتے ہیں۔ وزیر حج نے تو یہ مسئلہ اٹھایا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیر اعظم اور وزارت خارجہ نے سعودی حکام کو 66 ہزار سے زائد حاجیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے آگاہ کیا ہے۔
سہیل وڑائچ کے مطابق، ان عازمین حج کی خون پسینے کی کمائی پہلے ہی سعودی خزانے میں جمع کرائی جا چکی ہے مگر اب سعودی حکومت کچھ سننے کو تیار نہیں ۔
سابق وفاقی وزیر حج چودھری سالک حسین نے حج سستا کرنے، حرم کےقریب رہائشیں لینے اور رقوم پر وزارت حج کے منافع لینے کے اقدامات کو ختم کیا تھا۔ انہوں نے مجھے اس مسئلے پر بریف کرتے ہوئے بتایا تھا کہ حج کے انتظامات بہت پہلے شروع کرنا ہوتے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے سعودی حکومت پاکستان کو انتباہ کر رہی تھی کہ آپ عازمین حج کیلئے مخصوص رقوم ڈیڈلائن گزرنے کے بعد جمع کرواتے ہیں لہذا اس برس ایسا نہ کیجئے گا۔ بقول سالک، اس بار ڈیڈ لائن گزرنے کے بعد آنے والی رقوم پر کوئی رعایت نہیں دی جا رہی، اس لئے بار بار کی وارننگ کے باوجود سعودی حکومت تاخیر سے جمع کرائی گئی رقوم کو اکاموڈیٹ نہیں کر رہی۔
سالک حسین نے اس مسئلے کی اندرونی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عازمین حج کی عادت بنی ہوئی ہے کہ وہ حج کے بارے میں حتمی فیصلہ چھوٹی عید کے بعد کرتے ہیں اور رقوم بھی تب جمع کرواتے ہیں، دوسری جانب حج آرگنائزر کے پاس چونکہ پہلے رقوم جمع نہیں ہوتیں، اور انہیں عازمین حج کی حتمی تعداد کا بھی علم نہیں ہوتا اسلئے وہ بھی رقوم جمع کروانے میں تاخیر کرتا ہے۔ چونکہ ماضی میں ہر سال ڈیڈلائن گزرنے کے بعد پاکستانی حکومت سعودی حکام سے رعایت لے لیا کرتی تھی اس لئے سب کا خیال تھا کہ اس برس بھی رعایت مل جائیگی۔ لیکن اس بار سعودی حکومت سرے سے یہ رعایت دینے کو تیار نہیں کیونکہ وہ اپنے انتظامات مکمل کر چکی ہے لہٰذا وہ تاخیر سے رقوم جمع کرانے والوں کیلئے حج کے انتظامات کرنے سے قاصر ہے۔
موجودہ وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے اس مسئلے پر 66 ہزار عازمین حج سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں امید دلائی ہے کہ وفاقی حکومت کوشش میں ہے کہ یہ عازمین حج ضرور یہ فریضہ ادا کریں، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ معاملہ وزیر اعظم، وزیر خارجہ یا آرمی چیف نےکس سطح پر سعودی حکومت کے سامنے سے اٹھایا ہے، جب تک 66 ہزار حاجیوں کا یہ مدعا اعلیٰ سطح پر نہیں اٹھایا جاتا اسکے حل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس مسئلے کے متاثرہ ایک حج آرگنائزر نے بتایا کہ حجاج اور آرگنائزر کو اس برس نہ صرف جذباتی صدمہ پہنچا ہے بلکہ انکے مذہبی جذبات کو بھی ٹھیس پہنچی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ آرگنائزر کو اس فیصلے سے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچے گا۔ جب پوچھا گیا کہ کیا آپ کو رقوم جمع کروانے کے لیے سعودی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ڈیڈلائن کا علم نہیں تھا، حج آرگنائزر نے کہا کہ ہمیں معمول کے مطابق احکامات آتے رہے لیکن کوئی غیر معمولی حکم نہیں آیا، نہ ہی ہمیں اندازہ تھا کہ اس مرتبہ پاکستانی حکومت بے بس ہو جائے گی اور سعودی حکومت اس قدر سختی دکھائے گی۔
کیا بھارت آبی جارحیت کے بعد پاکستان پر حملے کا رسک لے گا؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہر ذمہ دار ریاست اور ذمہ دار حکومت ہر شہریون کے حقوق کی محافظ اور خادم ہوتی ہے، جب ریاست اپنے فرائض نبھاتی ہے تو ہر شہری ریاست کو ماں اور حکومت کو اپنا سہارا سمجھتا ہے۔ اگر ریاست اور حکومت شہریوں کے حقوق کا خیال نہ رکھیں تو پھر شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا جاتا ہے، لہذا اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس مسئلے کا فوری نوٹس لے کر اسے ترجیحاً حل کرے گی یا غفلت کی چادر تان کر سوئی رہے گی؟