حملہ ہوا تو پاکستان نیوکلیئر آپشن استعمال کرنے میں آزاد کیوں ہو گا؟

پاکستان اور بھارت کے مابین جنگی حالات بننے کے بعد عوامی حلقوں میں ایک ہی سوال زیر گردش ہے کہ کیا دونوں ممالک کے مابین جنگ کی صورت میں پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا یا جنگ روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ہی لڑی جائے گی؟ وہیں یہ سوال بھی سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان کن حالات میں بھارت کیخلاف اپنے ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا؟

مبصرین کے مطابق  ملکی سلامتی اور بقا سے منسلک پاکستان کی نیوکلیئر ڈاکٹرائن ’’فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ کے تحت پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام تین نکات پر مشتمل ہے یعنی ان میں سے کسی ایک صورت کے سامنے آتے ہی پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں آزاد ہو گا۔ مبصرین کے مطابق اگر بھارتی فوج آزاد کشمیر سمیت پاکستانی سرزمین کے کسی ایک قابل ذکر حصہ پر قبضہ کرلیتی ہے تو پاکستان اپنے ٹیکٹیکل نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرے گا۔ دوئم اگر کراچی، لاہور یا کسی اور اہم شہر کی دہلیز تک بھارتی فوج داخل ہوتی ہے تو پاکستان ایٹمی ہتھیار استعمال کرے گا۔ اسی طرح اگر بھارت، پاکستان کی طرف بہنے والے دریائوں کا بہائو روکتا ہے یا ان کا رخ موڑتا ہے تب بھی پاکستان کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے جائیں گے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ پاکستان کی مسلمہ نیوکلیئر ڈاکٹرائن ہے۔ کیونکہ یہ تینوں عوامل پاکستان کی بقا سے جڑے ہیں۔ ان تینوں بھارتی اقدامات کے نتیجے میں پاکستانی وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔  یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے تمام تر عالمی دبائو کے باوجود ’’نو فرسٹ اسٹرائیک ایگریمنٹ‘‘ پر اب تک دستخط کرنے سے انکار کیا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں پہل کرنے کا حق رکھتا ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق معروف دفاعی تجزیہ نگار آصف ہارون راجہ کہتے ہیں ’’دنیا کی تاریخ میں ایٹم بم صرف ایک بار جاپان کے شہروں ہیروشیما اور ناگا ساکی پر استعمال کیے گئے۔ اس کے بعد جس ملک نے بھی ایٹم بم بنایا،کبھی استعمال نہیں کیا۔ امریکہ اور سوویت یونین کے مابین کئی دہائیوں تک سرد جنگ چلتی رہی۔ یہ کبھی گرم جنگ میں تبدیل نہیں ہوئی۔ اس کا سبب سوویت یونین کے پاس بھی ایٹم بم کا ہونا تھا۔ اسے ہی’’ڈیٹرنس‘‘ کہتے ہیں۔ یہی ڈیٹرنس ہم نے بھی قائم کیا ہے۔ ورنہ درمیان میں ایسے کئی مواقع تھے کہ بھارت، پاکستان کے خلاف مکمل جنگ چھیڑ سکتا تھا۔ لیکن اسے معلوم ہے کہ اب پاکستان کے پاس بھی ایٹم بمز اور جدید میزائل ہیں۔ آصف ہارون کے مطابق روایتی ہتھیاروں کے لحاظ سے اگرچہ بھارت کو پاکستان پر برتری حاصل ہے۔ لیکن ہماری نیوکلئیر اور میزائل ٹیکنالوجی بھارت سے سپیرئیر ہے ۔ ساتھ ہی پاکستان نے بھارتی’’کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کو کاؤنٹر کرنے کے لیے ٹیکٹیکل ایٹمی بم یعنی چھوٹے ایٹمی ہتھیار بھی بنا رکھے ہیں۔ تاکہ اگر بھارت پاکستان کے خلاف تیز ترین حملے پر مبنی اپنی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن استعمال کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کرکے اسے سبق سکھایا جاسکے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ’’ٹیکٹیکل ایٹم بمز کا پھیلاؤ بہت محدود ہوتا ہے۔ یعنی اس کے تابکاری اثرات میدان جنگ تک رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آگے بڑھتی دشمن کی فوج پر ٹیکٹیکل ایٹم بم استعمال کیا جائے تو وقوعہ پر موجود تمام فوج اور ان کے ہتھیار تباہ ہو جائیں گے۔ اس کے مقابلے میں بڑا ایٹم بم پورا شہر یا ملک تباہ کر سکتا ہے۔ یہ وہی ٹیکٹیکل نیوکلیئر بمز ہیں، جس پر بھارت، امریکہ اور مغرب چیخیں مارہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا اختیار متعلقہ علاقے کے بریگیڈ کمانڈر کو دیا جاچکا ہے۔ یعنی موقع کی نزاکت کے مطابق بریگیڈ کمانڈر ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔ اسے اس حوالے سے اعلیٰ کمانڈ سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

انڈیا کے لیے پاکستان پر جنگ مسلط کرنا آسان کیوں نہیں ؟

مبصرین کے مطابق بھارتی فوج کی بدلتی ہوئی جنگی حکمت عملی کے بعد پاکستان نے اپنی کم از کم ڈیٹرنس ڈاکٹرائن کی جگہ ’’فل اسپیکٹرم ڈیٹرینس‘‘ ڈاکٹرائن اختیار لی ہے‘‘۔زمینی، سمندری اور فضائی سہہ رخی نئی حکمت عملی کے تحت پاکستان کے پاس ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد فاصلے تک بھرپور جوابی کارروائی کی صلاحیت موجود ہے۔ جس میں وہ اپنی سلامتی کے لیے ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔ اگر اس کا تھوڑا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا ’’فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ دراصل ایک ایسی حکمت عملی ہے، جس کا مقصد دشمن کو روکنے کے ساتھ اسٹرٹیجک، آپریشنل اور ٹیکٹیکل صلاحیتوں سمیت نیوکلیئر ہتھیاروں کی مکمل رینج رکھتے ہوئے ایک قابل اعتماد دفاعی پوزیشن کو برقرار رکھنا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس حکمت عملی کو روایتی اور جوہری حملوں سمیت مختلف خطرات سے نمٹنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ نئی حکمت عملی کے تحت آرمی، نیوی اور ایئر فورس تینوں افواج کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کردیا گیا ہے۔جبکہ اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ تمام ممکنہ اہداف، چاہے وہ بھارت میں ہوں یا باہر کے علاقوں میں، پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کی رینج کے اندر ہوں۔ اس بارے میں بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کہتے ہیں ’’فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس‘‘ کے تحت پاکستان کے کروز میزائل زمین، فضا اور سمندر سے ایٹمی حملہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کروز میزائلوں کے ذریعے پاکستان بھارت کو بیک وقت ان تینوں سطحوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ کروز میزائل کو روکا نہیں جا سکتا۔ یہ سو فیصد ایکوریسی اور برق رفتاری کے ساتھ اپنے نشانے پر لگتا ہے۔ بھارت کے پاس موجود روسی ساختہ ایئر ڈیفنس سسٹم ایس 400 بھی کروز میزائل کو نہیں روک سکتا‘‘۔

Back to top button