کیا ٹرین ہائی جیکنگ سے بلوچ قوم پرست اپنے مقاصد حاصل کر پائیں گے؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جعفر ایکسپریس نامی ٹرین ہائی جیک کرنے والوں نے درجنوں افراد کو شہید اور درجنوں کو اغوا کر کے دنیا کو یہ تو باور کروا دیا کہ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ تشدد اور قتل وغارت کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں کسی ٹرین پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں ہے۔ مسافر ٹرینوں پر حملے نواب نوروز خان زرکزئی کی گرفتاری اور جیل میں موت کے بعد شروع ہوئے۔ نواب اکبر خان بگٹی کی 2006ء میں مشرف جنتا کے ہاتھوں شہادت کے بعد ٹرینوں پر حملوں میں مزید شدت آئی اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ آج کے بلوچستان میں ویسے ہی حالات ہیں جیسے 1973 میں تھے جب وزیر داخلہ خان عبدالقیوم خان نے پاکستان میں عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کروانے کے بعد بلوچستان میں نیپ کی حکومت کو پاکستان کیخلاف سازش کے الزام پر برطرف کروا دیا تھا۔ اسکے بعد اکبر بگٹی کو گورنر بنا کر فوجی آپریشن شروع کیا گیا اور سپریم کورٹ کے ذریعہ نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ پیپلز پارٹی نے جام غلام قادر کے ساتھ مل کر صوبے میں حکومت بنا لی۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ نہ تو نیپ پر پابندی لگوانے والے ذوالفقار علی بھٹو پر کسی نے رحم کیا اور نہ انکا ساتھ دینے والے اکبر بگٹی کو کسی جرنیل نے قبول کیا۔ اسکے بعد جام غلام قادر جنرل ضیاء کی مدد سے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بن گئے، انکے برخوردار جام یوسف جنرل مشرف کی مدد سے وزیر اعلیٰ بنے اور انکے پوتے جام کمال کو جنرل باجوہ نے وزیر اعلیٰ بنوایا۔
حامد میر کہتے ییں کہ آج پھر بلوچستان پر پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور حالات آپ کے سامنے ہیں۔ بلوچستان میں بھارت کی سازشوں سے کسی کو انکار نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا گرگٹ کی طرح اپنے سیاسی رنگ بدلنے والے سیاست دان بلوچستان کے حالات سدھار پائیں گے؟ سینیئر صحافی ایک پرانا واقعہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ 24 مئی 1998 کا دن تھا۔ گوادر ایئر پورٹ سے پی آئی اے کا ایک فوکر جہاز کراچی کیلئے روانہ ہوا۔ جہاز کے فضاء میں بلند ہونے کے تھوڑی دیر بعد تین مسافروں نے اسلحہ نکال کر جہاز کا رخ نئی دہلی کی طرف موڑنے کا حکم دیا۔
جہاز کے کپتان عذیر خان نے ہائی جیکروں کو بتایا کہ اس کے پاس ایندھن بہت کم ہے وہ نئی دہلی تک نہیں جا سکتا۔ ہائی جیکروں کے پاس ایک نقشہ تھا اور وہ نقشے کی مدد سے کوئی ایسا بھارتی ایئر پورٹ تلاش کر رہے تھے جہاں یہ فوکر جہاز لینڈ کر سکتا تھا۔ جہاز میں 33 مسافر اور عملے کے پانچ افراد موجود تھے۔ عذیر خان نے ہائی جیکرز کو بتایا کہ وہ جہاز کو بھارتی گجرات کے بھوج ایئرپورٹ پر اتار سکتا ہے۔ ہائی جیکروں نے صلاح مشورے کے بعد اسے بھوج کی طرف جانے کی اجازت دیدی۔ ایک ہائی جیکر کاک پٹ میں کپتان کےساتھ موجود تھا اور دو ہائی جیکروں نے مسافروں پر اسلحہ تان رکھا تھا کپتان نے کچھ دیر کیلئے جہاز کو فضاء میں گھمایا اور وہ شام کے سائے گہرے ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ پھر اس نے ہائی جیکروں کو نقشے کی مدد سے بتایا کہ وہ پاکستان کی حدود سے نکل کر بھارت میں داخل ہو گیا ہے پھر کپتان نے انگریزی میں بھوج ایئر پورٹ کا نام لیکر بتایا کہ اس کا جہاز اغوا ہو چکا ہے اس لئے وہ بھوج میں لینڈ کرنا چاہتا ہے۔
کنٹرول ٹاور نے فوری طور پر کپتان کو کوئی جواب نہیں دیا کیونکہ کپتان نے یہ پیغام بھوج ایئر پورٹ کو نہیں بلکہ پاکستان کے شہر حیدر آباد کے ایئر پورٹ کو دیا تھا۔ حیدر آباد ایئر پورٹ کے عملے نے عقلمندی کا مظاہرہ کیا اور کپتان کو لینڈ کرنے کی اجازت دیدی۔ کپتان نے حیدرآباد ایئر پورٹ کے رن وے پر لینڈ کیا اور جہاز کو عمارت کے قریب لیجانے کی بجائے کافی فاصلے پر کھڑا کر دیا تاکہ پتہ نہ چلے کہ جہاز کون سے ایئر پورٹ پر آیا ہے۔ رات ہو چکی تھی اور ایئر پورٹ کے عملے نے مرکزی عمارت کی روشنیاں بجھا دیں تاکہ ایئر پورٹ پر کوئی تحریر پڑھ کر ہائی جیکر اندازہ نہ لگا سکیں کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ایئر پورٹ کے عملے نے فوری طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ ایس ایس پی حیدر آباد اختر گورچانی اور ایک نوجوان اے ایس پی عثمان انور ایئرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ان دونوں نے فوری طور پر حیدر آباد کی انتظامیہ کو ہدایت کی کہ شہر کی مساجد سے لاؤڈ سپیکر پر کوئی اذان نہ دی جائے۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ کچھ دیر کے بعد ہائی جیکروں نے جہاز کے انجینئر کے ذریعے پیغام بھیجا کہ وہ بابا جان کے آدمی ہیں اور انڈیا کے زی ٹی وی کو انٹرویو دینے کیلئے تیار ہیں۔ اختر گورچانی اور عثمان انور نے فیصلہ کیا کہ کراچی سے کمانڈوز کے آنے کا انتظار نہ کیا جائے بلکہ خود ہی کوئی حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ اختر گورچانی نے سویلین ڈریس پہن لیا اور وہ بھوج ایئر پورٹ کے مینجر منوج کمار جبکہ عثمان انور اسسٹنٹ مینجر رام چندر بن گئے۔ گرمی بہت زیادہ تھی ہائی جیکروں نے پانی مانگا تو یہ دونوں پولیس افسر پانی کی بوتلیں لیکر خود جہاز میں چلے گئے۔ ہائی جیکرز نے پانی لے لیا اور زی ٹی وی کے متعلق پوچھنے لگے۔ اختر گورچانی اور عثمان انور کو سمجھ آ چکی تھی کہ تینوں ہائی جیکر بلوچ علیحدگی پسند ہیں اور انہوں نے بھارتی خفیہ ادارے را کی ملی بھگت سے جہاز اغوا کیا ہے۔ اس سے چند دن پہلے بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور پاکستان جوابی ایٹمی دھماکے کرنے کی تیاری میں مصروف تھا۔ بھارت نے پاکستان کو بلیک میل کرنے کیلئے تین بلوچ نوجوانوں کو استعمال کیا اور پی آئی اے کا ہوائی جہاز اغواء کرا دیا۔
عثمان انور نے ہائی جیکرز کو رام چندر بن کر بتایا کہ زی ٹی وی کے پاس بھوج میں کوئی کیمرہ مین نہیں ہے اس لئے زی ٹی وی کی ٹیم نئی دہلی سے آ رہی ہے۔ اس دوران عثمان انور کو پتہ چل گیا کہ ہائی جیکرز کے پاس کوئی ہینڈ گرنیڈ نہیں ہے اور صرف دو پسٹل ہیں۔ اس دوران رینجرز کا میجر عامر ہاشمی بھی کھانا لیکر جہاز میں پہنچ گیا اور کچھ دیر بعد منوج کمار، رام چندر اور عامر ہاشمی نے تینوں ہائی جیکرز پر حملہ کر کے انہیں دبوچ لیا۔ دھینگا مشتی میں ہائی جیکروں نے ایک فائر کیا جو ان کے اپنے ہی ساتھی کو لگ گیا۔ اس دوران مزید فورس آ گئی اور تینوں ہائی جیکرز گرفتار ہو گئے۔ یہ آپریشن مکمل ہوا تو ایک ایئر ہوسٹس نے شور مچا دیا کہ اسے پاکستان واپس بھیجا جائے، جب اسے بتایا گیا کہ گھبراؤ نہیں تم پاکستان میں ہی ہو تو وہ خوشی سے رونے لگی۔ ان ہائی جیکرز کا سرغنہ شہسوار بلوچ تھا اس کے دو ساتھی صابر بلوچ اور شبیر رند بلوچستان سٹوڈنٹس ارگنائزیشن یعنی بی ایس او سے تعلق رکھتے تھے۔ ان تینوں نے گوادر ایئر پورٹ پر اے ایس ایف کے ایک اہلکار کی ملی بھگت سے اسلحہ جہاز میں سمگل کیا اور جعلی ناموں سے جہاز میں سفر کیا۔
حامد میر بتاتے ہیں کہ 28 مئی 1998 کو پاکستان ایٹمی طاقت بنا اور ان تینوں ہوئی جیکرز کو بھی 28 مئی 2015 کو پھانسی دیدی گئی۔ اختر گورچانی آگے چل کر انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ بنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آ گئے جبکہ عثمان انور آج کل آئی جی پنجاب ہیں، بلوچ علیحدگی پسندوں نے 1998 میں ہوائی جہاز اغواء کیا لیکن اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکے۔ اب مارچ 2025 میں انہوں نے کوئٹہ سے پشاور جانے والی ایک ٹرین کو اغواء کیا ہے۔ ٹرین کے اغواء اور قتل وغارت سے بھی بلوچوں کیلئے خیر نہیں نکلے گی لیکن 1998ء اور 2025ء میں کافی فرق ہے۔ 1998 میں صرف دو پولیس افسروں نے اسلحے کے بغیر تین مسلح ہائی جیکرز پر قابو پا لیا تھا۔ 2025 میں جب پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے، ٹرین اغوا کرنے والوں نے درجنوں افراد کو شہید اور درجنوں کو اغوا کر کے دنیا کو یہ تو بتا دیا کہ بلوچستان کے حالات بہت خراب ہو چکے ہیں لیکن تشدد اور قتل وغارت کے ذریعہ وہ آج بھی اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتے۔
ٹرین حملے کے بعد میڈیا پر سنسر شپ لگانے کا فائدہ ہوا یا نقصان؟
حامد میر کہتے ہیں کہ ٹرین ہائی جیک کرنیوالوں پر قابو پانے کیلئے ریاستی اداروں نے جانی نقصان بھی اٹھایا ہے۔ اس ہولناک واقعے نے ہمیں وزیر داخلہ محسن نقوی کا وہ بیان یاد دلایا ہےکہ ’بلوچ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں‘۔