کیا عمران خان معیشت تباہ کر کے اقتدار حاصل کر پائیں گے؟
بانی پی ٹی آئی عمران خان کو دوغلی پالیسی کا گرومانا جاتا ہے۔ جب کبھی عمران خان کا ایک ہاتھ گریبان پر ہوتا ہے تو اس نے دوسرے ہاتھ سے پاوں بھی پکڑ رکھے ہوتے ہیں۔ حالیہ دنوں بھی عمران خان نے دوغلی پالیسی اپنا رکھی ہے ایک جانب یوتھیے رہنما عمران خان کو ریلیف کی فراہمی کیلئے حکومت سے مذاکرات کی بھیک مانگتے اورترلے منتیں کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں دوسری جانب اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804 نے اب سول نافرمانی کی تڑیاں لگانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے حکومت پر اپنے مطالبات کی منظوری کیلئے دباؤ بڑھانے کیلئے اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر پاکستان نہ بھیجنے کی اپیل کر دی ہے۔
بانی پی ٹی آئی نے اپنے ٹوئٹر بیان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری ترسیلات زر کا بائیکاٹ کریں۔ عمران خان کا یوتھیوں سے مزید کہنا ہے کہ حقیقی آزادی اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ترسیلات زر کا بائیکاٹ اس وقت تک کیا جائے جب تک حکومت ان کے مطالبات پورے کرنے کے لیے معنی خیز اقدامات نہیں کرتی۔عمران خان کی جانب سے ریاست مخالف نئی حکمت عملی کو جہاں سیاسی حلقوں میں ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے وہیں یہ سوال بھی زیر بحث ہے کہ عمران خان کی اپیل پر ترسیلات زر میں کمی ممکن ہے؟ ترسیلات زر میں کمی ملکی معیشت پر کتنی اثر انداز ہو سکے گی؟ اور اس طرح کی سول نافرمانی تحریک ملکی معیشت کیلئے کس حد تک زہر قاتل ثابت ہو گی۔
خیال رہے یوتھیے رہنماؤں کے مطابق ترسیلات زر کا بائیکاٹ سول نافرمانی تحریک کا پہلا مرحلہ ہے۔ یعنی سول نافرمانی تحریک کے پہلے مرحلے میں بانی پی ٹی آئی عمران خان نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھیجنے کی اپیل کی ہے کہ وہ ترسیلات زر کا بائیکاٹ کریں یا آسان الفاظ میں کہا جائے تو عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کو کہا ہے کہ وہ بیرون ملک سے پاکستان رقم بھیجنے کا بائیکاٹ کردیں۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کے مطابق عمران خان کے اس فیصلے سے حکومت پر دباؤ پڑے گا اور وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی سمیت پی ٹی آئی کے تمام مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائے گی
خیال رہے کہ ترسیلات زر یا ریمیٹنس وہ پیسے ہوتے ہیں جو پاکستانی شہری کسی بیرون ملک میں رہ کر اس ملک کی کرنسی میں کما کر پاکستان میں موجود اپنے خاندان کو بھیجتے ہیں۔‘ترقیاتی ممالک میں ترسیلات زر کو جی ڈی پی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔ ترسیلات زر کو کسی بھی ترقیاتی ملک کی معیشت کے لیے بہت اہم قرار دیا جاتا ہے۔’
ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان جیسے مشترکہ خاندانی نظام والے ملک میں ترسیلات زر کا کسی بھی خاندان کی معاشی سپورٹ میں اہم کردار ہوتا ہے۔ایشیائی ترقیاتی بینک کے رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ترسیلات زر میں اضافہ سن 2000 سے دیکھا گیا ہے اور اب پاکستان کے جی ڈی پی کا تقریباً 10 فیصد حصہ ترسیلات زر سے آتا ہے۔سادہ الفاظ میں اگر ہم بیان کریں تو اگر پاکستان کے اندر سالانہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں تو اس میں ایک ہزار روپے ترسیلات زر سے آتے ہیں۔
معاشی ماہرین کے مطابق ترسیلات زر پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ترسیلات زر کی وجہ سے ہی پاکستان 2007 اور 2008 کے بحران سے نکلا تھا اور اسی طرح کرونا وبا کے دوران بھی ترسیلات زر میں اضافے کی وجہ سے پاکستان معاشی بحران سےباہر آنے میں کامیاب ہوا تھا۔ معاشی ماہرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی کے بائیکاٹ یا کسی اور وجہ سے پاکستان کی ترسیلات زر میں کمی آتی ہے تو ہمارے پاس درآمدات کے لیے بھی پیسے نہیں ہوں گے جبکہ اس وقت نہ ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ درآمدات کے لیے مزید قرضے لیں۔’انہوں نے مزید بتایا کہ ترسیلات زر میں کسی قسم کی بھی کمی پاکستان کے لیے ایک خطرہ ہے اور حکومت کو اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے امریکہ کے سامنے ڈٹ جانے کا فیصلہ کر لیا
تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی تحریک سے ملکی معیشت کو کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟ معاشی ماہرین کے مطابق اگر ترسیلات زر کے نومبر کے مہینے کے اعدادوشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے تجزیہ کریں تو نومبر میں تقریباً 805 ارب روپے بیرون ممالک سے بھیجے گئے ہیں۔اب پی ٹی آئی کی اپیل پر اگر عمل کرتے ہوئے صرف 10 فیصد ترسیلات زر میں کمی آجائے تو پاکستان کو ماہانہ تقریباً 80 ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔تاہم یہ مجموعی طور پر تمام سمندر پار پاکستانیوں کی ترسیلات زر کی بات کی گئی ہے جب تمام بیرون ملک پاکستانی پی ٹی آئی کی اپیل پر عمل کریں لیکن ضروری نہیں ہے کہ بیرون ملک مقیم تمام پاکستانیوں کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو۔لیکن اب اگر ہم بیرون ملک مقیم صرف 10 فیصد اوورسیز پاکستانیوں کی بات کریں تو 10 فیصد پاکستانی بھی اگر ترسیلات زر میں 10 فیصد کمی لائیں تو پاکستان کو ماہانہ آٹھ ارب روپے کا نقصان ہو سکتا ہے۔