کیا عمران خان جیل سے نکلنے کے لیے زبان بندی کا معاہدہ کر لیں گے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے مابین جاری مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلنا اس لیے ممکن نہیں کہ دونوں فریق ایک دوسرے کو گنجائش دینے یا لچک دکھانے کے موڈ میں نہیں۔ ویسے بھی سب سے اہم کردار تیسرے فریق کا یعنی فوج کا ہے، جو سانحہ 9 مئی کے منصوبہ سازوں کو نشان عبرت بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ یعنی حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کیلئے سوائے نیک خواہشات کے اور کچھ نہیں۔ اگر عمران خان نے بنی گالہ میں نظربندی کی سہولت بھی لینی ہے تو اس کے عوض انہیں موجودہ نظام تسلیم کرنا اور خاموش رہنے کا معاہدہ کرنا ہو گا۔ لہٰذا دیکھنا یہ ہے کہ دونوں اطراف کتنی گنجائش اور لچک دکھائی ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ سیاسی بحران کے حل کیلئے مخالف سیاسی جماعتوں کے مذاکرات انتہائی خوش آئند اور پوری قوم کے دل کی آواز ہیں، لیکن فی الحال یہ مذاکرات نیم دلی کے ساتھ کئے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی فریق مذاکرات کی میز پر ہارنا نہیں چاہتا، دونوں فریقین مزاکراتی ٹیبل سے جیت کر ہی جانا چاہتے ہیں، اس لئے فی الحال کوئی مثبت نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ مذاکرات میں سنجیدگی کی پہلی علامت جنگ بندی ہو گی۔ دنیا بھر میں صلح اور امن کے مذاکرات فائربندی کے بعد شروع ہوتے ہیں۔ اب ایک طرف تحریک انصاف کا گالی بریگیڈ دشنام کی بندوق تانے فائر کر رہا ہو اور دوسری طرف فوج اور حکومت بھی کوئی رعایت دینے کو تیار نہ ہوں تو مذاکرات سے کوئی نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے؟

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ مثبت مذاکرات کیلئے ماحول بنانا پڑتا ہے، ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے رکنا پڑتا ہے، اپنی ضد اور انا کو ختم کرنا پڑتا ہے۔ مذاکرات تب کامیاب ہوتے ہیں جب دونوں فریق صرف جیتنے پر ہی مصر نہ ہوں ہارنے کیلئے بھی تیار ہوں۔۔لچک مذاکرات کی کامیابی کو یقینی بناتی ہے، ایک طرف فوجی عدالتیں سزائیں سنا رہی ہوں اور دوسری طرف عمران خان کہہ رہے ہوں کہ مذاکرات کے دوران بھی ترسیلات زر بند کرنے کی مہم جاری رہے گی تو ٹیبل ٹاک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ سب کی خواہش ہے کہ ورکنگ ریلیشن ہو، سب کی خواہش ہے کہ سیاسی استحکام آئے، سب کی خواہش ہے کہ روز روز کے دھرنے اور اسمبلی کے اندر ہنگامے ختم ہوں لیکن ان خواہشوں کے باوجود اگر لچک نہ دکھائی گئی تو مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن تحریک انصاف کے حکومت سے مذاکرات کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان نے بالآخر اس نئے نظام کو اور 8 فروری 2024 کے الیکشن نتائج کو تسلیم کر لیا ہے، بظاہر وہ عبوری یا مجبوری کے طور پر ہی نظام کو تسلیم کر رہے ہونگے مگر یہ ایک بہت بڑی لچک ہے۔ اگر یہ لچک عمران کی منظوری سے آئی ہے تو اس سے سیاسی مصالحت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف حکومت کا پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھنا بھی کافی خطرناک ہے کیونکہ فوج 9 مئی 2023 اور 26 نومبر 2024 کے ملزموں کو انتشاری قرار دے چکی ہے، موجوفہ حکومت اسوقت فوج کی مرہون منت ہے اس لئے اسکے ہاتھ بندھے ہیں، نہ وہ فوج کے خلاف کئے گئے جرائم کی معافی دے سکتی ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی کو وہ سیاسی جگہ دے سکتی ہے جو خود اسکے استعمال میں ہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس پی ٹی آئی کو دینے کیلئے سوائے نیک خواہشات کے کچھ نہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کو زیادہ سے زیادہ عمران خان کی بنی گالا میں نظربندی اور ایک دھاندلی کمیشن کا قیام مل سکتا ہے لیکن اس کے بدلے میں عمران خان کی طرف سے نظام کو تسلیم کرنا اور خاموش رہنا بڑی شرائط ہونگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں دونوں طرف سے کتنی گنجائش اور لچک دکھائی جاتی ہے۔ فوج کی طرف سے معافی طلب کرنے والے 9 مئی کے مجرمان کی رہائی ایک خوش آئند اقدام ہے لیکن وہ رہائی کے بعد جس قسم کے انتشاری بیانات داغ رہے ہیں اس سے ماحول دوبارہ کشیدہ ہونے کا خطرہ ہے۔

سہیل وڑائچ کے بقول یہ درست ہے کہ عمران مسلسل جنگجو رہے ہیں، ماضی میں بھی مزاحمت، جارحیت اور جلوس و دھرنوں کی سیاست کرتے رہے ہیں لیکن حالیہ دو برسوں میں وہ اس ہتھیار سے اپنا کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر سکے، بلکہ الٹا یہ ہوا کہ انکی ساری سیاسی چالیں الٹی پڑ گئیں۔ 9 مئی ہو، 8 فروری ہو یا پھر 26 نومبر ہو، عمران خان جو بھی کرنا چاہتے تھے وہ نہ ہو سکا اور آج کی صورتحال یہ ہے کہ وہ مقبول ہونے کے باوجود پہلے معزول ہوئے پھر انہیں قبولیت سے محروم ہونا پڑا، ایسے میں انہیں معقولیت سے وقت گزارنا چاہئے تھا مگر وہ اس سے الٹ راستے پر چلے اور مزید مشکلات کا شکار ہوتے چلے گئے۔

سینیئر اینکر پرسن کا کہنا ہے کہ عمران خان کو بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی مثال پر عمل کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھ کر نظام کا حصہ رہنا چاہئے تھا۔ اگر وہ اس حکمت عملی پر عمل کرتے تو اب ان کے فوج سے تعلقات بہتر ہوگئے ہوتے اور آج وہ شہباز شریف کے متبادل بن کر عوام اور فوج دونوں کے دلوں کی دھڑکن بن چکے ہوتے، مگر انہوں نے فوج کے مقابلے کی ٹھانی، ان کا اپنی ہی خالق فوج سے ٹکرانے کا فیصلہ سراسر غلط تھا، ایک تنہا سیاسی لیڈر اور ایک غیر مسلح اور غیر منظم سیاسی جماعت ایک منظم اور آئینی طور پر مسلح فوج کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ کہا کرتے تھے جمہوریت کہیں پھنس جائے تو اس کا علاج آمریت یا جنگ نہیں ہوتا بلکہ اس کا علاج مزید جمہوریت ہے ۔حالیہ مذاکرات میں جہاں تعطل آئے، جہاں رکاوٹ آئے اس کا حل مزید مذاکرات ہیں، بات چیت ہوتی رہی تو کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل ہی آئے گا۔ دونوں طرف کی مذاکراتی ٹیموں سے عرض ہے کہ وہ دور چلا گیا جب صرف جنگجو بہادر اور سورمے ہیرو اور آئیڈیل ہوا کرتے تھے، اب امن کروانے والے، صلح کیلئے سہولت کاری والے اور دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے والے بھی ہیرو اور آئیڈیل مانے جاتے ہیں۔ مشرقی دنیا قذافی، صدام اور حافظ الاسد کو پوجتی رہی جبکہ مغربی دنیا انوار السادات کی صلح پسندی کو داد دیتی رہی۔ دنیا 20 صدیاں لڑ کر، جنگیں بھگتا کر اور نفرتیں پال کر 21 ویں صدی میں اس حقیقت سے آگاہ ہو چکی ہے کہ مفاہمت، مصالحت اور معاہدے ہی بہترین راستے ہیں۔ پاکستان نے بھی اگر جدید دنیا میں قدم رکھنا ہے، ٹیکنالوجی میں آگے جانا ہے اور خوشحالی کی طرف بڑھنا ہے تو اس سفر کا آغاز باہمی تنازعات کو ختم کر کے ہی رکھا جا سکتنا ہے۔ سیاسی عدم مفاہمت پاکستان کی معاشی اور سماجی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مصالحت کو، لچک اور ایک دوسرے کو جگہ دینے سے باآسانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

9 مئی کے کن مجرموں کو معافی ملی ہے اور کن کو نہیں مل سکتی؟

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ اگرچہ فی الحال مذاکرات کی کامیابی کا امکان کم ہے، کوئی بڑا ریلیف بھی کسی فریق کو ملنے والا نہیں، کئی بار مذاکرات تعطل کا شکار ہونگے مگر پھر بھی مذاکرات ہی واحد حل ہیں۔ پاکستان کی مستقبل کی تاریخ میں لڑانے والوں کا نہیں صلح کروانے والوں کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔21ویں صدی کے ہیرو ہٹلر اور سٹالن نہیں بلکہ برٹرینڈرسل ہے جس نے جنگ بندی کی بات کی، اس کے خلاف مہم چلائی، جلاوطنی تک اختیار کی مگر امن کا الاپ کرتا رہا۔ آج کی سیاست میں کوئی نوابزادہ نصراللہ خان تو نہیں ہے مگر حکومت اور اپوزیشن میں سے جو بھی مفاہمت کروانے میں کامیاب ہو گا وہ خودبخود آج کے پاکستان کا نوابزادہ نصراللہ خان بن جائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہم جنگوں کے شوقین کب امن کے متوالے اور مفاہمت کے پیروکار بنتے ہیں۔

Back to top button