کیا عمران آرمی چیف پر امریکی پابندیاں لگوانے میں کامیاب ہوں گے ؟

اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں تخلیق پانے والی عمران خان کی تحریک انصاف پر عجب وقت آن پڑا ہے۔ لق ودَق صحرا میں بگُولے کی طرح رقص کرتے اور گھُمّن گھیریاں کھاتی ہوئی پی ٹی آئی کو کچھ اندازہ نہیں کہ وہ کس کیفیتِ وجد میں ہے اور اُسکے گردوپیش کیا ہو رہا ہے۔ پارٹی کی باگیں کسی اور کے ہاتھ میں ہے، رکاب میں پائوں کسی اور کا ہے، کاٹھی پر کوئی اور سوار ہے اور چابک کوئی اور لہرا رہا ہے۔ لیڈران کے طورپر اڈیالہ جیل کے آس پاس منڈلاتے اور قیدی نمبر 804 سے ملاقاتیں کرنے والے بیشتر چہرے ایسے ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں میں اُبھرے اور عمران خان کی آشیر باد سے پارٹی کی صفوں کو چیرتے ہوئے صفِ اول میں آن کھڑے ہوئے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینٹر عرفان صدیقی ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیرسٹر علی گوہر 2022 میں پی ٹی آئی میں آئے اور اگلے ہی برس دسمبر 2023 میں قائم مقام چیئرمین بن کر خان صاحب کی کُرسی پر آن بیٹھے۔ 2023 میں تحریکِ انصاف کا حصّہ بننے والے سلمان اکرم راجہ، اگلے سال، 7 ستمبر 2024ء کو سیکریٹری جنرل کی کرسی پر براجمان ہو گئے۔ 2023 میں مشرف بہ تحریکِ انصاف ہونے والے شیخ وقاص اکرم آج پارٹی کے سیکریٹری اطلاعات ہیں۔ پی ٹی آئی کے اس اندر ملے اس تلاطم کا واحد سبب صرف نئی اور پرانے قائدین کی سوکنوں والی لڑائیاں ہی نہیں، بلکہ جوتیوں میں دال بٹنے کے دیگر کئی اسباب بھی ہیں۔ درودیوار ہلادینے والے بھونچال کا مرکز اڈیالہ جیل میں ہے۔ اعظم سواتی کی گُل افشانی ہو یا راجہ سلمان اکرم، علیمہ خان اور دیگر کی جانب سے سنگ باری، امریکی ڈاکٹروں کی مفاہمتی کاوشیں ہوں یا اُنہی ڈاکٹروں کی جانب سے امریکی کانگریس مین، جو وِلسن کے پاکستان مخالف بل کی پشت پناہی، فوج قیادت سے معاملات طے کرنے کے لئے منت ہو یا سوشل میڈیا اور یوٹیوبرز کے ذریعے بازاری مغلظات، اسٹیبلشمنٹ کے دَر پر پڑے مسلسل آوازیں لگانے کی حکمتِ عملی ہو یا عارف علوی کے ذریعے امریکی میڈیا میں فوج کی وردی نوچنے جیسی مکروہ حرکات، اِن سب کے پیچھے صرف ایک ہی کردار ہے۔
عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اعظم سواتی، یکایک رونما ہوئے، قرآن ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ ’’دسمبر 2022 میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران خان نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں آرمی چیف سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے مجھ پر اعتماد کیا اور کہا کہ اعظم سواتی فوجی قیادت سے رابطہ کرو۔ عمران خان سے مشاورت کے بعد میں نے جنرل عاصم منیر کے ایک اُستاد کے ذریعے رابطے کی کوشش کی، پھر عاصم منیر کے ایک قریبی دوست اور عارف علوی کے ذریعے کوشش کی لیکن کوئی دروازہ نہیں کھُلا۔ اَب میں نے پھر خان سے ملاقات میں ان سے اجازت مانگی ہے کہ میں ڈاکٹر علوی کے ذریعے بات چیت کا دروازہ کھولوں۔ خان صاحب نے کہا کہ بالکل تمہیں اجازت ہے۔ اگر یہ بات چیت کرتے ہیں تو میں پہلے دِن کی طرح تیار ہوں۔ ‘‘
عرفان صدیقی کے بقول یہ اُس جنرل عاصم منیر کی بات ہو رہی ہے جن کی تقرری روکنے کیلئے عمران خان نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے تھے۔ موصوف نے آرمی چیف کی تقرری جیسے حساس معاملے کو کوچہ وبازار کا موضوع بنایا۔ اُن کی اہلیت پر اُنگلیاں اٹھائیں۔ فیض حمید کے ذریعے نادرا کے ریکارڈ میں نقب لگائی اور ایک دوست ملک کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ آخری چارہ کار کے طور پر عمران خان نے اسلام آباد پر چڑھائی کر دی۔ اَب اعظم سواتی کی قرآن پر گواہی یہ ہے کہ خان صاحب تو معافی تلافی کے لئے اُسی دِن، سَر کے بل چلتے ہوئے کوچۂِ رقیب میں جا پہنچے تھے جب عاصم منیر نے فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ لیکن افسوس کہ تب سے آج تک دستکیں دینے کے باوجود کوئی دروازہ نہیں کھُل رہا۔کوئی نیند سے بوجھل آواز میں یہ تک نہیں پوچھ رہا…’’کون ہے؟‘‘
عرفان صدیقی یاد دلاتے ہیں کہ عمران خان نے اپریل 2022 کے بعد جنرل باجوہ کو امریکی ایجنٹ، سازشی، رجیم چینج کا مرکزی کردار، جانور، میر جعفر، میر صادق اور جانے کیا کیا کچھ کہا لیکن صرف چارماہ بعد عمران خان دَست بستہ جنرل باجوہ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور کہا سنا معاف کرنے کی عرضداشت پیش کی۔ پھر موصوف نے اسی سازشی جانور کو اقتدار واپس ملنے کے عوض بطور آرمی چیف تاحیات توسیع کی پیشکش کر دی، لیکن سُوکھے دھان پر پانی کی ایک بوند بھی نہ پڑی۔
اب حال ہی میں امریکہ میں مقیم ڈاکٹروں کا ایک وفد پُراسراریت کی چادراوڑھے آیا اور اڈیالہ جیل راولپنڈی میں عمران سے ملاقات کے بعد افواہوں کی دُھند میں لپٹا واپس چلاگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اُن کی یہ کاوش بھی بے ثمر رہی۔ اِن ڈاکٹرز کا تعلق امریکہ میں قائم کی جانے والی تنظیم ’’پاکستان فرسٹ گلوبل‘‘ سے ہے جسے وہاں پی ٹی آئی کا ترجمان اور فولادی مورچہ خیال کیا جاتا ہے۔ کانگریس مین جو وِلسن بھی اسی تنظیم کے ممبر ہیں جنہوں نے پاکستان اور اسکی فوجی قیادت پر پابندیاں لگانے کا بل حال ہی میں امریکی کانگرس میں پیش کیا تھا۔ یہ بل کہتا ہے کہ ’’اِس قانون کے نفاذ کی تاریخ سے 180 دِن کے اندر اندر امریکی وزیر خارجہ، امریکی وزیر خزانہ سے مل کر، پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر پر انسانی حقوق کے احتسابی ایکٹ کے تحت پابندیاں عائد کر دیں گے۔‘‘
مولانا نے عمران سے ہاتھ ملانے کیلئے کون سی گارنٹیاں مانگ لیں؟
سینٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ یوتھیے ڈاکٹرز ایک طرف اس طرح کا متعفن قانون امریکی کانگریس میں لانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور دوسری طرف پاکستان آ کر عمران خان پر عنایات کے لیے منت سماجت کر رہے ہیں۔ ایسا منافقانہ رویہ صرف پی ٹی آئی کا خاصہ ہے۔ صبح و شام پاک فوج پر حملے کرنے والا سوشل میڈیا بریگیڈ اور بیرونِ ملک بیٹھے یوٹیوبرز، خان صاحب کا اثاثۂِ خاص ہیں۔ اُن کی سرگرمیاں اور سرمستیاں خان صاحب کے لئے سامانِ نشاط ہیں۔ وہ کبھی اُن سے اظہارِ لاتعلقی نہیں کریں گے۔ خود اُن کا اپنا ایکس اکائونٹ اسی طرح بارود خانہ بنا رہے گا۔ دراصل عمران خان کا یہ گھائو بھر نہیں پا رہا کہ اپریل 2022 میں جب قومی اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کا ڈول ڈالا تو فوج اُن کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ زخم بھرنے پہ آتا بھی ہے تو وہ شدّتِ جذبات میں اُسے کھُرچ ڈالتے ہیں۔ اِس زخم سے مسلسل ’’مخاصمت‘‘ کی ٹیسیں اُٹھتی رہتی ہیں اور تب تک اٹھتی رہیں گی جب تک خدانخواستہ فوجی قیادت انہیں دوبارہ مسند اقتدار پر فائز نہیں کر دیتی۔