کیا بلوچستان میں فوجی آپریشن سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن ہوگا ؟

وفاق کی جانب سے بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کمر توڑنے کے لیے فوجی آپریشن کے اعلان کے بعد سے ملک بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا ایسے آپریشن سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوگا یا نہیں۔ اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ فوجی اپریشن کے نتیجے میں دہشت گردی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ اب عسکریت پسند خون خرابے میں آخری حد بھی کراس کر چکے ہیں لہذا اسلحہ اٹھانے والوں کے خلاف فوجی کارروائی ہی آخری آپشن ہے۔

بلوچ سیاستدانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی اکثریت کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل فوجی آپریشن نہیں ہے۔ سابق وزیر اعلی بلوچستان مالک بلوچ کے مطابق،’’فوجی آپریشن تو 22 سال سے جاری ہیں۔‘‘ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کے فیصلے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی میں خطرناک حد تک اضافہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ریاست اپنی عمل داری بحال کرے۔ تاہم اس فیصلے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن پہلے سے محرومیوں کے شکار صوبے میں صورتحال مزید خراب کر سکتا ہے۔

بلوچستان میں فوجی آپریشن شروع کرنے کی پیشرفت اعلیٰ سول اور عسکری اداروں کے حکام پر مشتمل ایپکس کمیٹی  کے ایک حالیہ اجلاس کے بعد سامنے آئی۔ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی نے بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جامع فوجی آپریشن کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔ حکومت کے جاری کردہ بیان کے مطابق،”بیرونی طاقتوں کی ایما پر عدم تحفظ پیدا کر کے پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کے لیے معصوم ملکی اور غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے والوں کے خلاف فوجی آپریشن کی منظوری دی گئی ہے۔‘‘

معروف بلوچ سیاست دان اور صوبے کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ یہ ایک غلط فیصلہ ہے اور اس سے بہتری کی بجائے بدامنی پھیلے گی۔ انہوں نے کہا، ” آپریشن تو 22 سال سے جاری ہے، لیکن کیا کوئی بہتری آئی ہے؟ حالات پہلے سے زیادہ خراب ہیں اور لوگوں کے تحفظات دن بدن بڑھ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس مجوزہ فوجی کارروائی میں معصوم لوگوں کے مارے جانے کا خدشہ بہت زیادہ ہے۔

انسانی حقوق کی متنازعہ کارکن  ماہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ صوبے کی سکیورٹی صورتحال اس مقام تک صرف طاقت کے استعمال کی وجہ سے ہی  پہنچی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’بلوچستان میں گاؤں کے گاؤں اجڑ چکے ہیں، حکومت کو سوچنا چاہیے کہ کیوں بلوچ دن بہ دن پہاڑوں کی طرف نکل رہے ہیں اور ایسی تحریکوں کا حصہ بن رہے ہیں۔”

بلوچستان سے ہی تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک کارکن صبیحہ بلوچ نے بھی فوجی آپریشن کے دوران معصوم لوگوں کے بڑے پیمانے پر قتل کے خدشے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے صوبے کی صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا، ”ہمیں ڈر ہے کہ اب کیا ہوگا؟ مجرم اور معصوم کے بارے میں کون فیصلہ کرے گا کیونکہ یہاں کوئی عدالتی یا سیاسی جوابدہی موجود نہیں ہے۔ بلوچ عوام پر ریاست کی مسلط کردہ لیڈرشپ مسائل کی اصل وجہ ہے۔‘‘

سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ بعض دفاعی تجزیہ کار بھی اس بات سے متفق ہیں کہ حکومت کو وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی کی بجائے دیگر اقدامات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سابق سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ  افواج پاکستان کو بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے لیے انٹیلی جنس کے محاذ پر ناکامی کا سامنا ہے، جو کہ دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیئے انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”بڑے پیمانے پر آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘

سینیر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ کہنا ہے کہ اگر صوبے میں امن ومان بحال کرنا اور بلوچوں کی محرومیوں کا خاتمہ  کرنا ہے تو حقیقی بلوچ قیادت کو سامنے لایا جائے۔ عوام کو شفاف عمل کے ذریعے اپنے رہنما منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ مسئلے کا حل صرف باصلاحیت سیاست دانوں کے ذریعے کیے جانے والے سیاسی مکالمے سے ہی ممکن ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی ایک ہی لاٹھی کے ساتھ سب کو ہانکنے کی پالیسی درست نہیں۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا،” صرف پرتشدد عناصر کے خلاف محدود آپریشن ہونا چاہیے اور وہ بھی مناسب عدالتی اور سیاسی نگرانی کے ساتھ‘‘

ڈاکٹر عبدا لمالک بلوچ کا کہنا ہے کہ حکومت اگر بلوچستان کے مسئلے کا دیر پا حل چاہتی ہے تو اسے صرف  فوجی نقظہ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا،  ’’صوبے میں مسنگ پرسنز، بے روزگاری اور گورننس کے بڑے مسائل موجود ہیں۔حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ” صوبے کی حقیقی قیادت کو سامنے لایا جانا چاہیے اور ان پر اعتماد کرنا چاہیے۔ صوبے میں پہلے ہی آپریشنز جاری ہیں اور اب یہ بڑے پیمانے پر آپریشن نفرت کو بڑھا دے گا کیونکہ اس آپریشن کے دوران بے قاعدگیاں ہونے کا قوی امکان ہے۔‘‘

دودتی جانب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کہا یے کہ چند برس قبل تک ہم نے دہشت گردی پر قابو پا لیا تھا، لیکن دوبارہ دہشت گردی بڑھنے پر دنیا ہمیں طعنے دے رہی ہے۔ تاہم منگل کو نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں لوگ دہشت گردی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ سالوں قبل دہشت گردی پر قابو پا لیا تھا لیکن آج دنیا ہمیں پھر دہشت گردی بڑھ جانے کے طعنے دے رہی ہے۔  انہوں نے خاص طور پر بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ”بی ایل اے جو کچھ کر رہی ہے وہ درندگی کی ایک مثال ہے۔‘‘

بشریٰ بی بی نے کپتان کے کھلاڑیوں کی چیخیں کیسے نکلوائیں؟

 بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے لب و لہجے کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ حکومت بات چیت کے بجائے فوجی آپریشن کے نتائج پر زیادہ بھروسہ کر رہی ہے۔  سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ کسی بھی مسئلے کا صرف ایک حل نہیں ہوتا اور حکومت کو کنٹرولڈ فوجی کاروائی کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا”ماضی میں ہمیں ایسا نہیں نظر ٓاتا کہ حکومت نے بلوچستان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہو۔‘‘

Back to top button