کیا القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض سزا سے بچ گئے ہیں؟

190 ملین پاؤنڈز کیس میں بحریہ ٹاؤن کے چئیرمین ملک ریاض پر عمران خان کو پیسوں کے بدلے القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے 400 کنال سے زائد زمین عطیہ کرنے کا الزام تھا لیکن احتساب عدالت کی جانب سے دیے گے فیصلے میں انہیں ابھی صرف اشتہاری قرار دیا گیا ہے۔ جہاں کئی قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک ریاض کے خلاف یہ کیس تب چلے گا جب وہ پاکستان واپس آئیں گے، وہیں ان کے قریبی ساتھیوں کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف تو کوئی کیس بنتا ہی نہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے 190 ملین پاؤنڈ کرپشن کیس میں عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ جبکہ ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ فیصلے میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض، ان کے صاحبزادے علی ریاض، پی ٹی آئی رہنما شہزاد اکبر، ذلفی بخاری، ضیاالمصطفیٰ نسیم اور فرحت شہزادی کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد ضبط کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ عدالت نے اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں جبکہ القادر ٹرسٹ کی پراپرٹی اور یونیورسٹی وفاقی حکومت کی تحویل میں دیے جانے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔

نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس کی تحقیقات میں دعوی کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض نے عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو القادر ٹرسٹ یونیورسٹی کے لیے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ میں واقع 458 کنال سے زیادہ زمین عطیہ کی تھی جس کے بدلے میں مبیّنہ طور پر عمران خان نے ملک ریاض کو 50 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا۔

دراصل یہ وہ رقم تھی جو برطانیہ میں غیرقانونی پیسے سے جائیداد رکھنے پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سے ضبط کی گئی تھی۔ یہ رقم برطانوی نیشنل کرائم ایجنسی کی طرف سے ریاست پاکستان کی ملکیت قرار دے کر پاکستان کو لوٹائی گئی، تاہم مبینہ طور پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر یہ رقم قومی خزانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں چلی گئی جس میں ملک ریاض کو عدالتی حکم پر بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں 460 ارب روپے جمع کرانے کا کہا گیا تھا۔

سابق نیب پراسیکیوٹر اور ماہر قانون عمران شفیق کا کہنا ہے کہ اس کیس میں ملک ریاض کو اس لیے سزا نہیں ہوئی کیونکہ وہ اس کیس میں اشتہاری ہیں، عدالت نے ان کے دائمی وارنٹ جاری کردیے ہیں اور ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے، اب جب کبھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کیا جائےگا اور پھر دوبارہ سے ان کے خلاف اسی کیس کا ٹرائل شروع کیا جائے گا، جس کے بعد سزا یا بری کرنے کا فیصلہ سنایا جائےگا۔ لیکن عمران شفیق نے کہاکہ میرے خیال میں ملک ریاض اس کیس میں ملزم بنتے ہی نہیں، اس کیس کے تین ملزمان ہیں عمران خان، شہزاد اکبر اور ذلفی بخاری ہیں، کیوںکہ ملک ریاض پبلک آفس ہولڈر نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے کسی فیصلے سے یہ رقم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف نیب نے ملیر کینٹ کی زمین کے استعمال کا ایک کیس بنایا تھا، اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انہیں 465 ارب روپے کا جرمانہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کو کیا اس لیے سزا دی جائے گی کہ ان کے پیسے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کو ملیر کینٹ کی زمین والے کیس میں سزا ہو سکتی تھی لیکن اس میں بھی ڈیل کرلی گئی تھی۔

سینیئر کورٹ رپورٹر ملک اسد نے کہا 190 ملین پاونڈز کیس بارے کہا کہ ملک ریاض کو اس کیس میں سزا اس لیے نہیں ہوئی کیونکہ وہ اشتہاری ہیں، ملک ریاض کے خلاف کیس کی فائل کو داخل دفتر کردیا گیا اور دائمی وارنٹ جاری ہو گئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ملک ریاض پاکستان آئیں گے تو ان کو گرفتار کرکے ان کے خلاف ٹرائل شروع کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہاکہ نیب قوانین کے مطابق ملزم کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل ہوسکتا ہے لیکن اس سے عدالتی وقت کا بہت ضیاع ہوتا ہے کیونکہ جب کبھی کسی موقع پر ملزم ٹرائل میں شامل ہوتا ہے تو پھر دوبارہ سے کارروائی کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اس وقت ملک ریاض کو کیس سے الگ کردیا گیا ہے اور اگر ملک ریاض یا دیگر ملزمان ٹرائل میں شامل ہوں گے تو اس کے بعد ان کا ٹرائل الگ سے شروع کیا جائےگا۔

عمران خان کو سزا کے بعد مذاکرات کا کھیل ختم ہونے کا امکان

ماہر قانون اور پاکستان بار کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک ریاض اس وقت بیرون ملک میں ہیں اور اس کیس میں اشتہاری ہیں، قوانین کے مطابق تو سیکشن 512 کے تحت چالان جاری کرکے ان کے خلاف بھی ٹرائل ہو سکتا ہے لیکن عدالت نے اس کو زیادہ ضروری نہیں سمجھا۔ انہوں نے کہاکہ اب عدالت نے ان کے اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیا ہے تو جو اثاثے ان کے نام پر ہیں ان کو ضبط کیا جائےگا جبکہ جو اثاثے کسی اور کے نام پر ہیں ان کو ضبط نہیں کیا جا سکتا، اس وقت ملک ریاض کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ پاکستان آئیں، اس کیس میں ان کا ٹرائل ہو اور پھر ان کو سزا دی جائے یا بری کیا جائے۔

حسن رضا پاشا نے کہا کہ ملک ریاض کو سزا دینے کے لیے حکومت کے پاس ایک اور آپشن یہ ہے کہ ان کے ریڈ وارنٹ جاری کیے جائیں، اگر پاکستان اور جس ملک میں وہ مقیم ہیں ان کے درمیان تحویل ملزمان کا معاہدہ ہے تو ان کو گرفتار کرکے پاکستان لایا جا سکتا ہے اور ان کے خلاف ٹرائل کا آغاز بھی ہو سکتا ہے۔

Back to top button