کیا مذاکرات اور سول نافرمانی کی دھمکی ساتھ ساتھ چل پائیں گے؟

تحریک انصاف جہاں ایک طرف حکومت سے مذاکرات کے نام پر پیار کی پینگیں بڑھا رہی ہے وہیں پی ٹی آئی نے مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں سول نافرمانی کی دھمکی بھی دے رکھی ہے جبکہ عمران خان مذاکراتی عمل کے دوران ہی اوورسیز پاکستانیوں سے ترسیلات زر نہ بھجوانے کی اپیل بھی کر چکے ہیں تاہم یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی تحریک کیا واقعی ’سول‘ ہو گی یا یہ ایک ایسی ’فوجداری‘ واردات میں ڈھل جائے گی جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے اچھی خاصی قابل دست اندازی پولیس بھی ہو گی؟تحریک انصاف کی سول نافرمانی کی تحریک کا ہدف حکومت ہے یا ریاست؟ تاہم مبصرین کے مطابق اگر پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی تحریک کا ہدف ریاست ہو گی تو فطری سی بات ہے کہ ردعمل بھی حکومت کی بجائے ریاست کی طرف سے آئے گا جو بڑا شدید ہو گا۔

مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی مجوزہ سول نافرمانی کی تحریک کے جو خدوخال سامنے آ رہے ہیں، ان کے مطابق پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کی جانب سے اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر محدود کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ تاہم یہاں یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا معاشی مسائل کا شکار ریاست پاکستان اس اقدام کی متحمل ہو پائے گی۔ یہ سوال بھی کم اہم نہیں کہ پی ٹی آئی ہی اس ملک دشمنی کے جواب میں ریاست جب جواب آں غزل کہے گی تو کیا تحریک انصاف اس کی متحمل ہو پائے گی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق معیشت ریاستوں کی لائف لائن ہوتی ہے۔ جس ریاست کو معاشی بحران کا سامنا ہو، کیا وہ آرام سے یہ منظر دیکھتی رہے گی کہ اسے ترسیلات زر سے محروم کرنے کی کوشش کی جائے؟ کیا یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ریاست اپنی لائف لائن سے بے نیاز ہو جائے گی؟ مبصرین کے مطابق پاکستان میں ہنڈی وغیرہ کے ذریعے رقم بھیجنا بھی جرم ہے کیونکہ اس سے ملک کا مالیاتی نظام متاثر ہوتا ہے۔ تو کیا سرے سے ملک میں رقوم ہی نہ بھیجنے کی ترغیب دینا فوجداری جرم نہیں ہو گا؟ کیا اس پر قانون حرکت میں نہیں آئے گا؟

یاد رہے کہ جرم صرف یہ نہیں کہ اپنے ہاتھ سے اس کا ارتکاب کیا جائے۔ کسی کو جرم پر اکسانا اور اس کی ترغیب دینا بھی اتنا ہی بڑا جرم قرار پاتا ہے۔ اسی لئے اوورسیز پاکستانیوں کو ترسیلات زر نہ بھیجنے کی ترغیب دینے والی پی ٹی آئی قیادت بھی گرفت میں آئے گی اور انھیں نشان عبرت بنایا جائے گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسی ریاست دشمنی کی جرات نہ ہو۔

مبصرین کے مطابق ترسیلات زر نہ بھیجنے کی کال کا دفاع کرتے ہوئے تحریک انصاف یقیناً یہ کہے گی کہ اس کا ہدف ریاست نہیں بلکہ حکومت ہے۔لیکن حکومت سے نفرت کی بنیاد پر اگر ریاست کے معاشی مفادات ہی داؤ پر لگا دیے جائیں تو یہ نرم سے نرم انداز میں بھی بڑی آسانی سے ’سیڈیشن‘ کا جرم قرار دیا جا سکتا ہے اور تعزیرات پاکستان کے تحت اس کی سزا عمر قید تک بھی ہو سکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اگرچہ عملاً یہ ایک غیرفعال قسم کا نو آبادیاتی قانون ہے لیکن جب معاشی اہداف کو نشانہ بنایا جائے گا تو اس قانون کو بھی نیند سے بیدار کیا جا سکتا ہے۔ تاہم  اگر پی ٹی آئی کی اس سول نافرمانی کی بندوق صرف اوورسیز کے کندھوں پر رکھ کر نہیں چلائی جاتی بلکہ مقامی سطح پر کارکنان بھی اس میں شامل ہوتے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ معاملہ کتنا ’سول‘ اور کتنا ’فوجداری‘ ہو گا۔کیونکہ سیاسی اشرافیہ کی انجمن امداد باہمی پی ٹی آئی قیادت کو تو ڈی چوک کے حصار سے نکلنے کا موقع فراہم کر دیتی ہے اور کارکن دھر لیا جاتا ہے۔ اس لیے ہر سول نافرمان کو اپنی جمع تفریق خود کر لینی چاہیے۔ کیونکہ اگر آپ یوتھیے رہنماؤں کے بہکاوے میں آکر سول نافرمانی کے تحت  گیس اور بجلی کے بل نہیں دیتے، تو آپ کے میٹر کٹ سکتے ہیں۔ آپ نوکری پر نہیں جاتے، آپ کو گھر بھیج کے نئی بھرتی ہو سکتی ہے۔آپ کسی درجے میں قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتے ہیں تو یاد رہے کہ اسی درجے میں قانون آپ کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے کیونکہ ریاست کا کوئی داماد نہیں ہوتا۔ ریاست کے صرف شہری ہوتے ہیں۔

مبصرین کے مطابق کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی کال پر وہ کہاں کھڑی ہو گی؟ کیا وہ اس سے لاتعلق رہے گی یا یہ بھی سول نافرمان ہو جائے گی؟ کیا وہ اپنے صوبے میں شہریوں سے کہے گی کہ وفاق کے بل ادا نہ کیے جائیں؟خیبر پختونخوا کے جو لوگ روزگار کے لیے بیرون ممالک میں مقیم ہیں اور جن کے گھروں کے چولہے ان کے بھیجے پیسوں سے چلتے ہیں ان کے لیے کیا حکم ہو گا؟ ترسیلات زر روکنے کے بعد کیا ان کے گھروں کے چولہے جلانے کی ذمہ داری سول نافرمان وزیر اعلیٰ کی ہو گی؟ مبصرین کے مطابق یہاں سوال یہ بھی ہے کہ سول نافرمان حکومت خود اپنے صوبے کے معاملات کیسے چلا پائے گی؟ سول نافرمان وزیر اعلیٰ کے ساتھ وفاق کے تعلق کی نوعییت کیا ہو گی؟ کیا صوبائی مشینری کو بھی نافرمانی پر مائل کیا جائے گا؟ تاہم پی ٹی آئی قیادت کو ایسی کال دینے سے پہلے یہ ضرور مد نظر رکھنا چاہیے کہ کیا ایسی سرکشی کہ صورت میں وفاق کا ردعمل کیا ہو گا؟  کیا وہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا رہے گا یا ایسی سرکشی کا سر کچل ڈالے گا کہ آئندہ کوئی ایسی بغاوت کی جرات نہ کرے۔

فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر مذاکرات کی کامیابی ناممکن

تجزیہ کاروں کے مطابق تحریک انصاف کو اپنی غلطیوں اور حماقتوں سے سبق سیکھنا چاہیے کیونکہ سیاست بند گلی سے رستہ نکالنے کا نام ہے۔ سیاست پی ٹی آئی کی طرح اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کا نام نہیں ہے۔ مبصرین کے بقول پی ٹی آئی لیڈر شپ کو سول نافرمانی کی حتمی کال دینے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے مسلسل مس ایڈ ونچرز نے پہلے ہی تحریک انصاف کو کچھ نہیں دیا اور اسے تنہا کرنے کے ساتھ ساتھ بند گلی میں دھکیل دیا ہے، اب اس کا سول نافرمانی کا نیا مس ایڈونچر کہیں اس کی آخری مہم جوئی نہ بن جائے۔

Back to top button