کیا PTI کا پیپلز پارٹی اور نون لیگ میں لڑائی کا خواب پورا ہوگا؟

مختلف ایشوز پر پیپلز پارٹی اور نون لیگ کے مابین جاری فرینڈلی فائرنگ کے دوران یوتھیے رہنما امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اختلافات کی وجہ سے جلد یا بدیر دونوں جماعتوں کے اتحاد کو ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ جائے گی جس سے نہ صرف حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا بلکہ ان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ تاہم مبصرین کے مطابق پیپلزپارٹی اور نون لیگ کو مقتدر قوتوں نے اتحاد کی ایسی ڈوری کے ساتھ آپس میں باندھ رکھا ہے کہ دونوں جماعتیں چاہیں بھی تو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ویسے بھی نون لیگ اور پیپلزپارٹی دو الگ الگ سیاسی جماعتیں ہیں دونوں کے منشور الگ ہیں اس لئے کئی معاملات پر دونوں جماعتوں میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں تاہم ان اختلافات کی بنیاد پر یہ خیال قائم کرنا کہ پیپلزپارٹی کبھی بھی حکومتی اتحاد سے الگ ہو کر حکومت کو ڈی ٹریک کرے گی سوائے خام خیالی کے کچھ نہیں۔
اس حوالےسے پیپلز پارٹی کے اندورنی ذرائع کا دعوی ہے کہ پیپلز پارٹی ملک میں اچانک تبدیلی کی چلنے والی ہواؤں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اپنی خود مختار شناخت کو برقرار رکھ کر ن لیگ پر اپنے وعدوں کی پاسداری کے لیے دباؤ ڈالے رکھنا چاہتی ہے تاہم اسکا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجودہ سیٹ اپ کی تشکیل کیلئے طے پانیوالی ڈیل کو توڑ رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی کمیٹیوں نے حال ہی میں ایک بار پھر ملاقات کی ہے تاکہ وعدوں کی تکمیل کے حوالے سے پیپلزپارٹی کے خدشات کو دور کیا جا سکے، تاہم مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم ہو گئے۔ اب اگلی میٹنگ پیپلز پارٹی کے سی ای سی اجلاس کے بعد متوقع ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما قمرالزمان کائرہ کے مطابق پیپلزپارٹی کا پنجاب میں اپنے لیے کچھ جگہ بنانیکی خواہش کا سارا فسانہ صرف اس کی آزاد شناخت کو یقینی بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔پارٹی میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو حکومت میں کچھ حصہ لینے کی وکالت کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کسی کو کوئی سیاسی جگہ نہیں دے گی، دوسری بات یہ کہ اگر پیپلز پارٹی کے مطالبات مان بھی لیں تو یہ ان کے لیے سیاسی طور پر فائدہ مند نہیں ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کو نون لیگ سے مخاصمت بڑھانے کی بجائے پی ٹی آئی کے زوال کا فائدہ اٹھانا چاہیے اور اس ضمن میں کسی بھی موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے آپشن کھلے رکھنے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ووٹرز کے لیے پنجاب میں اس وقت پہلا انتخاب مسلم لیگ ن جبکہ دوسرا آپشن پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں خود کو آہستہ آہستہ منوا رہی ہے۔
قمر زمان کائرہ نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی حکومت میں پی ایم ایل این کی حدود سے پوری طرح آگاہ ہے، اگر اسٹیبلشمنٹ ہماری حمایت کرے تو پیپلز پارٹی ہفتے کے کسی بھی دن اپنا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ تاہم قمر زمان کائرہ نے واضح کیا کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی تاہم اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس سے ملک کی باگ ڈور کسی دوسری جماعت کو سنبھالنی پڑے تو پیچھے نہیں ہٹے گی۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے 2028 میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنے گی لیکن فی الحال اپنی قسمت آزمانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اگر خالصتاً عوامی مسائل پر بات کرنے سے پیپلز پارٹی کوآزادانہ تشخص برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے تو اس میں کوئی حرج یا نقصان کی بات نہیں ہے،پیپلز پارٹی عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے حکومت پر زور دیتی رہی ہے اور دیتی رہے گی۔
امریکہ پاکستانی بیلسٹک میزائل پروگرام کا راستہ کیوں روک رہا ہے؟
قمر زمان کائرہ نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی حقیقی طور پر چاہتی ہے کہ مسلم لیگ ن اپنے 25 نکاتی دستاویزی معاہدے پر عمل کرے۔ ہم انہیں معاہدوں کی پاسداری کی یقین دہانی کراتے رہیں گے لیکن اگر ایسا لگا کہ ن لیگ اپنے کئے وعدوں سے انحراف کررہی ہے۔ تو بالکل۔خاموش نہیں بیٹھیں گے۔پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی بھی مذاکرات اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے مسائل کے حل کی حامی رہی ہے،بدگمانیوں کے باوجود حکومت کو موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔