کیا اب شام میں بھی افغان طالبان ٹائپ اسلامی حکومت قائم ہوگی؟

شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے میں مرکزی کردار ادا کرنے والا عسکریت پسند گروہ ’ہیئت تحریر الشام‘ ماضی میں القاعدہ اور داعش کا اتحادی رہا ہے۔ ہیئت تحریر الشام کا شام کے موجودہ تنازع میں ایک عرصے سے کردار رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ، ترکی اور دیگر کئی ممالک نے اس گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
ہیئت تحریر الشام کا وجود 2011 میں جبهة النصرہ کے نام سے سامنے آیا تھا، جو کہ القاعدہ سے منسلک ایک گروہ تھا۔ داعش یا دولت اسلامیہ کے سابق سربراہ ابو بکر البغدادی کا بھی اس گروپ کو بنانے میں کردار تھا۔ اس گروپ کو شام میں صدر بشارالاسد کا سب سے خطرناک ترین مخالف سمجھا جاتا تھا۔ 2016 میں جبهة النصرہ کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے قطع تعلق کر لیا اور اس تنظیم کو تحلیل کرکے دیگر گروہوں سے اتحاد کر کے ہیئت تحریر الشام کی بنیاد رکھ دی۔
القاعدہ سے تعلق توڑنے کے بعد ہیئت تحریر الشام کا مقصد دنیا میں خلافت قائم کرنا نہیں بلکہ شام کی حد تک ایک بنیاد پرست مذہبی حکومت قائم کرنا ہے۔ لہذا بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد دنیا اس تشویش میں مبتلا ہونے جا رہی ہے کہ کیا شام میں بھی افغان طالبان ٹائپ حکومت تو قائم نہیں ہو جائے گی۔
سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ 2011 میں باغیوں کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کے بعد گذشتہ چار برسوں سے ایسا لگ رہا تھا جیسے شام میں جنگ اب ختم ہو گئی ہے اور حکومت ملک کے بڑے حصوں پر کنٹرول قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ بشار الاسد کی اس فتح کے پیچھے اصل میں روسی فضائیہ اور اہم اتحادی ایران کی عسکری قوت کا بھی ہاتھ تھا۔اسی لیے عرب میڈیا باغیوں کے ہاتھوں صدر بشار اسد کی حکومت کے خاتمے کو ’ایران کے لیے ایک بڑا دھچکا‘ قرار دے رہا ہے۔
لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ شامی فوج کو حیران کن شکست سے دوچار کرنے والے عسکریت پسند گروپ ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی کون ہیں۔ جولانی کی جانب سے جاری ہونے والے پہلے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب ہماری واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ اب ’مستقبل ہمارا ہے۔‘ یاد ریے کہ جب نومبر کے اختتام پر شام کے شہر حلب پر حکومت مخالف باغیوں قبضہ ہوا تو اس کی قیادت کرنے والے ایک باریش شخص کی تصاویر منظر عام پر آئیں جس نے عسکری لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ جولانی جس گروہ کی وہ سربراہی کر رہے ہیں اس پر مغربی ممالک کے علاوہ اقوام متحدہ اور چند مسلم ممالک نے بھی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور اسے ’دہشت گرد گروہ‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔
ابو جولانی شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف متحرک تحریک کے مرکزی رہنما ہیں اور اب دمشق کا کنٹرول بھی سنبھال چکے ہیں۔ یہاں تقریباً 30 لاکھ ایسے لوگ آباد ہیں جو شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے بے گھر ہوئے اور اسے حکومت مخالف تحریک کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ تاہم صرف دو ہفتے قبل شروع ہونے والا اچانک حملہ ابو جولانی کی زندگی کا شاید اب تک کا سب سے ڈرامائی باب ہے جو شام کی خانہ جنگی کے سب سے پراسرار اور متنازع رہنما ہیں۔ ابوجولانی کا اصل نام، ان کی تاریخ پیدائش، جائے پیدائش اور شہریت کے بارے میں مختلف معلومات موجود ہیں جس کی وجہ سے ان کی شخصیت کے حوالے سے پراسراریت میں اضافہ ہوتا ہے۔
جولانی کا اصلی نام احمد حسین ہے اور ان کو ابوجولانی گولان کی پہاڑیوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے جہاں سے ان کے خاندان کا تاریخی تعلق ہے۔ ایک انٹرویو میں جولانی کا کہنا تھا کہ وہ 1982 میں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے والد پیٹرولیئم انجینیئر کے طور پر کام کرتے تھے۔ 1989 میں ان کے اہلخانہ شام واپس لوٹے اور اس کے بعد ان کی پرورش دمشق کے قریب ہوئی۔ انھوں نے دمشق میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی لیکن ڈاکٹری کے تیسرے سال کے دوران عراق میں القاعدہ میں تب شمولیت اختیار کر لی جب امریکہ نے 2003 میں اس پر حملہ کیا۔ وہ جلد ہی عراق میں القاعدہ کے سرگرم رہنما ابو مصعب الزرقاوی کے قریبی ساتھی بن گئے لیکن 2006 میں الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد لبنان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے جند الشام نامی لبنانی عسکری گروہ کو تربیت فراہم کی۔
اسکے بعد جولانی کی عراق واپسی ہوئی لیکن امریکی فوج نے انھیں گرفتار کر لیا اور کچھ عرصہ تک قید میں رہنے کے بعد 2008 میں رہا کر دیا۔ قید سے رہائی کے فورا بعد وہ داعش یعنی دولت اسلامیہ میں شامل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ امریکی قید کے دوران انکے نظریات پختہ ہوئے اور مستقبل میں بننے والی داعش کے رہنماوں سے تعلقات بھی استوار ہوئے۔ جب 2011 میں شام میں بغاوت باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گئی تو ابوبکر البغدادی نے جولانی کو خصوصی مشن پر شام بھیجا تاکہ وہ داعش کی ایک مقامی شاخ کی بنیاد رکھ کر صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مزاحمت کی بنیاد رکھ سکیں۔
اسکے بعد انہوں نے 2012 میں ’جبھہ النصرہ‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی جو دولت اسلامیہ کی عراقی شاخ بن گئی۔ تاہم 2013 میں جب ابوبکر البغدادی نے باقاعدہ طور پر جبھہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے انضمام کا اعلان کیا تو جولانی نے اسے رد کرتے ہوئے القاعدہ کے سربراہ ایمن الزواہری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب جبھہ النصرہ عسکری اعتبار سے طاقتور ہوتی جا رہی تھی۔ جولائی 2016 میں جولانی نے اعلان کیا کہ ان کے گروہ کا القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں رہا اور اسے اب جبھہ فتح الشام کے نام سے پکارا جائے۔
2017 میں اس گروہ کو ’ہیئت تحریر الشام‘ کے نام سے ایک اتحاد کی شکل دی گئی جس میں دیگر تنظیمیں بھی شامل تھیں اور اس کے سربراہ جولانی تھے۔ اس تنظیم نے مقامی سطح کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی۔ 2021 میں جولانی نے ایک انٹرویو میں کہا تھق کہ انھوں نے القاعدہ کے عالمی جہاد کے نظریے کو ترک کر دیا ہے اور اب ان کا مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا ہے۔ اس انٹرویو میں جولانی نے کہا کہ ’جب ہم القاعدہ میں تھے، تب بھی یورپی یا امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کے خلاف تھے۔ ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‘ انھوں نے کہا کہ ہیئت تحریر الشام کو دہشت گرد گروہ کا درجہ دینا ’غیر منصفانہ‘ اور ’سیاسی‘ فیصلہ تھا۔
30 منٹ پہلے پھانسی دی جانی تھی، شام کی جیلوں سے آزاد قیدیوں کی داستانیں
جولانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال لیتے ہیں۔ پہلے ان کے نظریات القاعدہ سے قریب تھے لیکن بعد میں انھوں نے مقامی ایجنڈا کو اپنا لیا۔ ان کی قیادت میں ہیئت تحریر الشام نے حلب نامی شامی صوبے میں اسلامی نظام نافذ کیا، عدالتیں بنائیں اور پولیس فورس قائم کی۔ حلب میں ان کا کافی اثرورسوخ ہے جو شام میں اپوزیشن کا مرکز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہ علاقہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ یہ ترکی کی سرحد سے ملتا ہے۔ اس دوران جولانی نے عسکری کارروائیوں کے ساتھ ساتھ مقامی انتظامیہ چلانے اور سفارت کاری میں مہارت بھی دکھائی اور شام کے تنازع میں ایک اہم کردار بن کر ابھرے۔ امریکی حکومت جولانی کو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر ان کی گرفتاری کے لیے معلومات فراہم کرنے پر 10 ملین ڈالر کی انعامی رقم دینے کا اعلان کر چکی ہے۔