کیا مدارس بل پر حکومت مولانا کو قابو کرنے میں کامیاب ہوگی؟

حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے مابین دینی مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ ایک سیاسی کشیدگی کا روپ دھارتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں ایک طرف مولانا نے مدارس رجسٹریشن بل منظور نہ کرنے پر لانگ مارچ کی دھمکی دے رکھی ہے وہیں حکومت مولانا فضل الرحمن کا گھمنڈ توڑ کر 15 میں سے 12 دینی مدارس کے بورڈ کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے تاہم حکومت کی جانب سے مولاناکا ڈنگ نکالنے کیلئے ڈیوائیڈ اینڈ رول Divide and Rule

کی پالیسی اپنانے پر سربراہ جے یو آئی اور شہباز حکومت کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور مولانا فضل الرحمان نے حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق ملک کو داخلی انتشار سے محفوظ رکھنے کیلئے حکومت اور مولانا دونوں کو ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا چاہیے کیونکہ اس معاملے کو ہٹ دھرمی کی بجائے افہام وتفہیم سے حل کر کے ہی مزید سیاسی عدم استحکام سے بچا جا سکتا ہے۔

میزبان شاہزیب خانزادہ کا کہنا ہے کہ مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن نے نیا محاذ کھول دیا ہے۔ جس کے بعد اب حکومت کو دونوں اطراف سے سخت دباو کا سامنا ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے مطابق حکومت مان گئی تھی کہ نئی قانون سازی کے ذریعے مدارس کو یہ اختیار دے گی کہ وزارت ِ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن کروانے یا نہ کروانے میں آزاد ہوں گے۔ تاہم صدر نے یہ بل واپس بھجوادیا اس پر مولانا نے سڑکوں پر آنے کی دھمکی بھی دی۔ اب حکومت نے افہام وتفہیم سے معاملات کو حل۔نہ کیا تو پی ٹی آئی کے علاوہ جے یو آئی بھی سڑکوں پر نکل سکتی ہے۔

مبصرین کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم کے دوران بڑے حلیف بن کر سامنے آنے والے مولانا فضل الرحمان مدارس رجسٹریشن کے معاملے پر حکومت کے حریف بن چکے ہیں۔

خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان آئین کی 26 ویں ترمیم کی منظوری کے دوران ایک انتہائی سرگرم پرجوش اور طاقتور حکومتی حلیف کے طور پر سامنے آئے تھے اور صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم شہبازشریف وزیر داخلہ وزیر قانون اور دیگر حکومتی زعماء ان کا تعاون اور رہنمائی حاصل کرنے کیلئے ان سے مسلسل رابطوں میں رہتے تھے۔ اسلام آباد میں مولانا کی اقامت گاہ کئی ہفتوں تک ملک کے اہم سیاستدانوں اور ملکی اور غیر ملکی نمائندوں کی آماجگاہ بنی رہی۔

پھر 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے موقع پر ایوان میں ان تمام اکابرین کی باہمی ہم آہنگی اور ستائش باہمی کے مناظر دیدنی تھے۔جبکہ آج مولانا فضل الرحمن مدارس رجسٹریشن کے حوالے سے مطالبات پورے نہ ہونے پر حکمت کے حریف بن چکے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان حکومت کے سامنے خم ٹھوک کر کھڑے ہیں۔ محض چند ہفتوں میں صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ ایک دوسرے کو بیانات کی شکل میں پرانی باتیں یاد کرا رہے ہیں۔بلکہ مولانا طاہر اشرفی نے تو کھلے لفظوں میں جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ کو چیلنج بھی کر دیا ہے کہ دینی مدارس کی افرادی طاقت مولانا فضل الرحمان کے مدرسوں سے دیگر مدارس کے پاس کہیں زیادہ ہے۔ تاہم مولانا کسی صورت حکومتی دام میں آتے دکھائی نہیں دیتے۔

 حکومت دینی مدارس کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹر کرانا چاہتی ہے جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مدارس پر حکومتی نگرانی کو تسلیم نہیں کرتی۔

پاکستان میں جمہوریت قائم رکھنے کے لیے طاقتور فوج لازمی کیوں ہے؟

صدرآصف علی زرداری نے حال ہی میں سوسائٹیز رجسٹریشن (ترمیمی) بل 2024، جو عام طور پر مدارس بل کے نام سے جانا جاتا ہے، اعتراضات کے ساتھ واپس بھیج دیا تھا۔ یہ وہ بل تھا، جو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے پاس ہو چکا تھا لیکن صدر کے دستخط نہ کرنے کی وجہ سے یہ قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔

اس پیشرفت کے بعد سے حکومت اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے مابین سیاسی تناؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس بل (مدارس بل) پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں لانگ مارچ کی دھمکی دے دی ہے جبکہ حکومت نے مولانا کو رام کرنے کی کوششوں میں ناکامی کے دوران مدارس کے 15 میں سے 12 بورڈز کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جس سے مولانا اور حکومت کے معاملات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں تاہم اب یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ ماضی کے حلیفوں کہ کشیدگی کا انجام کیا ہوتا ہے اور مدارس رجسٹریشن کا معاملہ کیسے حل ہو گا۔

Back to top button